وفاقی دارالحکومت میں ان دنوں آزادی مارچ اور جمیعت علمائے اسلام ف کے دھرنے کی خبریں گرم ہیں۔
آخر مولانا فضل الرحمان دھرنا کیوں دینا چاہتے ہیں؟؟ کیا وجہ ہے ؟ کیوں مولانا تحریک انصاف سے ناراض ہیں؟؟
25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی ، معاشی بدحالی اور حکومتی ناہلی کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر سے حکومت کیخلاف اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان کررکھا ہے تاہم مارچ میں شرکت کے حوالےسے دو بڑی جماعتیں گومگوں کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔
10 اکتوبر کو مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے مولانا کے آزادی مارچ میں شرکت کی مخالفت کی۔ شہباز شریف کے مطابق اگر مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ اور دھرنا کوئی اثرات نہ قائم کرسکا تو حکومت کو نئی سانسیں مل سکتی ہیں۔
اس اجلاس کی تفصیلات لے کر اگلے روز ن لیگ کا وفد پارٹی قائد نواز شریف سے حتمی منظوری کیلئے کوٹ لکھپت جیل گیا تاہم شہباز شریف کمر درد کی وجہ سے نہ جاسکے۔
اسی دوران ن لیگ میں اختلافات کی خبریں بھی گردش کرنے لگیں تاہم ن لیگ نے انہیں مسترد کردیا۔ اگلے روز نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کے حکومت مخالف آزادی مارچ میں شرکت کا اعلان کردیا۔
لاہور کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ نہ صرف مولانا فضل الرحمان کے جذبے کو سراہتے ہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان کو پوری طرح سپورٹ بھی کرتے ہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے مؤقف کو اپنا ہی مؤقف سمجھتے ہیں، مولانا احتجاج کر رہے ہیں تو وہ بالکل ٹھیک کر رہے ہیں۔
نواز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے الیکشن کے فوری بعد استعفوں کی تجویز دی تھی، مولانا نے کہا تھا کہ احتجاج کریں لیکن ہم نے انہیں اس وقت قائل کیا کہ نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اُس وقت مولانا کی بات میں وزن تھا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اب سمجھتا ہوں کہ مولانا صاحب کی بات کو رد کرنا بالکل غلط ہوگا۔