انسداد دہشتگردی کی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں رحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت سنادی ہے۔
عدالت نے ایم کیوایم رہنما رؤف صدیقی سمیت چار افراد کو عدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا ہے۔ بری ہونے والوں میں ادیب خانم، علی حسن قادری اور عبد الستار بھی شامل ہیں۔
انسداددہشتگردی کی عدالت نے چار ملزمان کو سہولت کاری کا جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی ہے۔ سزا پانے والے سہولت کاروں میں ارشد محمود، فضل، شاح رخ اور علی احمد شامل ہیں۔
فیکٹری مالکان نے آتشزدگی کا ذمہ دار ایم کیو ایم کو قرار دیا تھا۔ فروری2017 میں ایم کیو ایم رہنما روف صدیقی، رحمان بھولا، زبیر چریا اور دیگر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ کیس میں ملزمان کے خلاف 400عینی شاہدین اور دیگر نے اپنے بیان ریکارڈ کرائے ہیں۔
ایم کیوایم کارکن زبیر چریا اوردیگر ملزمان گرفتار ہیں جبکہ روف صدیقی نے ضمانت پر ہیں۔ گیارہ ستمبر2012 کو ہونے والے سانحہ بلدیہ ٹاون میں259افراد جل کر ہلاک ہوگئے تھے اور آٹھ سال بعد لواحقین کو آج انصاف ملنے کا امکان ہے۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی پیروی رینجرز پراسیکیوشن نے کی ہے۔ تین تفتیشی افسران تبدیل ہوچکے۔ 4 سیشن ججزنےسماعت سےمعذرت کرلی تھی جبکہ 6 سرکاری وکلا نےدھمکیوں کےباعث مقدمہ چھوڑ دیا تھا۔
کراچی میں بلدیہ ٹاؤن میں ٹیکسٹائل فیکٹری سانحہ کو آٹھ سال بیت گئے ہیں۔ اس اندوہناک واقعہ میں دو سو انسٹھ افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔
واقعے کا مقدمہ پہلےسائٹ بی تھانے میں فیکٹری مالکان، سائٹ لمیٹڈ اور سرکاری اداروں کے خلاف درج کیا گیا، مختلف تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں اور جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا۔
سنہ2014 میں فیکٹری مالکان ارشد بھائیلہ، شاہد بھائیلہ اورعبدالعزیزعدالتی اجازت کے بعد دبئی چلےگئے۔6 فروری 2015 کو رینجرز نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی کہ کلفٹن سے ناجائز اسلحہ کیس میں گرفتار ملزم رضوان قریشی نے انکشاف کیا ہےکہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔
آگ لگانےکی اہم وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا 20کروڑ روپے کا بھتہ تھا۔ ملزم کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق حماد صدیقی نے بھتہ نہ دینے پر رحمان عرف بھولا کو آگ لگانے کا حکم دیا جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر آگ لگائی۔ 2015 میں ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے دبئی میں جاکر فیکٹری مالکان سے تفتیش کی جنہوں نے اقرار کیا کہ ان سے بھتہ مانگا گیا تھا۔
سنہ 2016 میں جے آئی ٹی پر چالان ہوا۔ اسی سال دسمبر میں رحمان بھولا کو بینکاک سے گرفتارکیا گیا۔ کیس کا مقدمہ پہلے سٹی کورٹ میں چلا اور پھر سپریم کورٹ کی ہدایات پرکیس کو انسداد دہشتگردی میں چلایا گیا۔
جنوری 2019کو کیس کےمرکزی ملزم عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا فیکٹری میں آگ لگانے کے بیان سےمکرگئے تھے۔ دوستمبر2020 کو گواہان کےبیانات اوروکلا کےدلائل مکمل ہونے پردہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مقدمہ کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
[ditty_news_ticker id=”1122″]