حضور! ہوش کے ناخن لیجئے، ریاض نجم

RIAZ NAJAM COLUMNIST2

طبل بج چکا۔ صف بندی کی جا چکی۔ رجز پڑھے جا رہے ہیں۔ کوئی دن جاتے ہیں کہ دشمن آمنے سامنے ہوں گے۔ ایک طرف اپوزیشن ہے کہ جس کے میمنہ اور میسرہ سہمے ہوئے ہیں۔ قلب میں جگہ ان کو ملی ہے جو کسی شمار میں نہ تھے۔ مولانا فضل الرحمان اپنی نشست تک نہ جیت سکے لیکن عملی طور پر اب وہی اپوزیشن لیڈر ہیں۔ دوسری طرف حکومت ہے، ادارے جس کی پشت پر ہیں۔ ہیجان ہے کہ مگر بڑھتا جاتا ہے۔ بیان در بیان۔ تنقید در تنقید۔ دانش اور حکمت عملی بروئے کار لائی جائے تو ہی نجات ممکن ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا مطالبہ واضح نہیں، مقاصد مگر سب کے سامنے ہیں۔ انتشار اور انارکی، حکومت اور اسے لانے والوں کے لیے مشکلات۔ جے یو آئی کا موقف ہے کہ تحریک انصاف کو دھاندلی سے لایا گیا۔ جے یو آئی اور دیگر جماعتوں کو دھاندلی سے ہرایا گیا۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کے سرکردہ رہنما کہیں اعلانیہ تو کہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں اسٹیبلشمنٹ کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ مطالبہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان مستعفی ہوں۔ اسمبلیاں تحلیل کی جائیں۔ نئے انتخابات کرائے جائیں۔ یہ مطالبہ اتنا ہی غیر حقیقی ہے جتنا کہ تبدیلی کا دعویٰ۔ جیسے عمران خان اور ان کی ٹیم کو یقین ہو چکا ہے کہ جیسی تبدیلی کا نعرہ وہ لگا کر آئے تھے، وہ جوئے شیر لانے سے بھی کٹھن کام ہے۔ ایسے ہی مولانا کو بھی یقین ہو گا کہ ان کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بفرض محال اگر حکومت مستعفی ہو جائے۔ اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں تو بھی کیا دوبارہ انتخابات میں شفافیت کے عنصر کی ضمانت دی جا سکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔
عمران خان نے دھرنوں کی طرح ڈالی۔ وہ اب ان کے گلے پڑتی جا رہی ہے۔ جو راہ انہوں نے دکھائی اب ہر کوئی اس پر چلنے کو بے تاب ہے۔ کارگاہ سیاست میں مولانا سا زیرک کوئی نہیں۔ یہ تو سیاست کے طالبعلم بھی جانتے ہیں کہ دھرنا کبھی گھاٹے کا سودا نہیں رہا۔ تحریک انصاف نے دھرنا دیا۔ حکومت جھولی میں آ گری۔ تحریک لبیک نے دھرنا دیا۔ انتخابات میں ایک موثر سیاسی قوت کے طور پر جگہ دی گئی۔ آزادی مارچ اور دھرنے کے اعلانات سے قبل جمعیت علما اسلام، جماعت اسلامی کی طرح غیر متعلق ہو چکی تھی۔ پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے مولانا مگر اب اپوزیشن لیڈر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ پہلے حکومتی توپوں کا رخ نواز شریف اور آصف زرداری کی جانب تھا۔ پھر مریم نواز اور بلاول بھٹو مرکز نگاہ بنے۔ اب عوام و خواص کی نظریں مولانا پر جمی ہیں۔ ہر کروٹ گنی جا رہی ہے۔ ہر قدم ناپا جا رہا ہے۔ بات منہ سے نکلتی نہیں اور مطلب پہلے اخذ کر لیا جاتا ہے۔ حکومتی وزرا ہوں کہ تحریک انصاف کی سینئر قیادت۔ زبان پر سب کی مولانا کا نام ہے۔
تاجر کی حکمرانی قابل قبول ہے، انا پرست کی ہر گز نہیں۔ بھارت سے مذاکرات کے خواہش مند اور ایران کی امریکہ اور سعودی عرب سے صلح کے لیے بے چین وزیر اعظم اپنی اپوزیشن سے بات کرنے پر تیار نہیں۔ وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اپوزیشن کرپٹ ہے۔ ان سے بات کیسے کر سکتا ہوں۔ حضور والا! نریندر مودی بھی تو مسلمانوں کے قاتل ہیں۔ قاتل سے بات کی جا سکتی ہے تو کرپٹ سے بھی کر دیکھیں۔ پھر کرپٹ تو ہر جماعت میں ہیں۔ اپنی جماعت کو ہی دیکھ لیں۔ کئی وزرا پر کرپشن کے کیس ہیں۔ بی آر ٹی منصوبے میں روز نیا گھپلا، نئی بے ضابطگی سامنے آ رہی ہے۔ سپریم کورٹ سے سزا یافتہ شخص کے ہاتھ میں ساری جماعت کی باگ ڈور تھما دی گئی ہے۔ بات مگر اصول کی نہیں انا کی ہے۔ حکمرانی کرنی ہو تو انا کو ایک جانب رکھنا پڑتا ہے۔
سیاست تدبر مانگتی ہے۔ حکومتی جماعت مگر اس سے محروم دکھائی دیتی ہے۔ وزرا کے بیانات کو لے لیں۔ دانش مندی کا تقاضا تھا کہ جلتی پر تیل نہ ڈالا جاتا۔ یہاں تیل بھی ڈالا جاتا ہے اور پھونکیں بھی ماری جاتی ہیں۔ ایک وزیر اٹھتا تو کہتا ہے اٹک سے آگے نہ آنے دیں گے۔ دوسرا کہتا ہے یوں مولانا کو یوں بٹھائیں گے کہ پھر کھڑے نہ ہو پائیں گے۔
مارچ کے قافلے ابھی روانہ نہیں ہوئے لیکن تیاری مکمل ہے۔ حکومت نے ایک حماقت یہ کی کہ مولانا کی پریس کانفرنس دکھانے سے ٹی وی چینلز کو روک دیا۔ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ جو خبر ہو گی وہ خلق تک ضرور پہنچے گی۔ جمیعت علما اسلام کے کارکنوں کی روز نئی ویڈیو سامنے لائی جا رہی ہے۔ کہیں لاٹھیاں اور ڈنڈے اٹھائے کھڑے ہیں۔ کہیں اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہیں۔ کشتیوں سے دریا پار کرنے کی مشق کی جا رہی ہے۔ مولانا پر جان قربان کرنے کی قسمیں اٹھائی جا رہی ہے۔ طاقت کے مراکز کو اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ جے یو آئی میں کارکن نہیں ہیں۔ عقیدت مند ہیں۔ کارکنوں کو ڈرایا جا سکتا ہے۔ عقیدت مند اور بھڑک اٹھیں گے۔ یہ عقیدت مند کسی سیاسی مقصد کے لیے نہیں لائے جا رہے۔ اپنے امیر کے حکم پر اکٹھے ہوں گے۔ تعداد بھی ان کی کم نہیں۔ لاکھوں نہیں تو ہزاروں ہوں گے جو اسلام آباد پہنچ کر ہی دم لیں گے۔ تشدد کی راہ اپنائی تو دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے؟ بھارت الگ راگ الاپے گا کہ کشمیرمیں تشدد کی بات کرنے والا عمران خان خود اپنے شہریوں کے حقوق غصب کر رہا ہے۔
گویا جے یو آئی دھرنے کے اعلان کے بعد اب وہ مکھی بن چکی ہے کہ اگلی جائے، نہ نگلی جائے۔ دھرنا ہونے دیا جائے تو حکومت کی سبکی ہی سبکی ہے۔ بزور طاقت روکا جائے تو سخت انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ آخر کار مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں۔ ان سے مفر نہیں۔ حکومت کی طرف سے مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ دھرنے کی تاریخ آگے بڑھائی جائے۔ اگر مطالبہ ماننا ہوتا تو اپوزیشن جماعتوں کا مان لیا جاتا ہے۔ مولانا تاریخ کا اعلان کر چکے ہیں۔ اب پیچھے ہٹنا ان کے اپنے ہاتھوں سے بھی نکلتا جا رہا ہے۔ اگر جے یو آئی کے چند ہزار کارکن بھی شہر اقتدار پہنچ گئے تو حالات بے قابو ہو سکتے ہیں۔ فیس سیونگ خون مانگتی ہے۔ خون بہا تو ایک اور لال مسجد جیسا سانحہ ہو سکتا ہے۔
حضور! ہوش کے ناخن لیجئے۔
ریاض نجم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *