افغانستان میں‌ طالبان حملوں‌میں‌تیزی، اقوام متحدہ نے خبردار کردیا، طالبان کا درجنوں‌علاقوں‌پر قبضہ

afghan war

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے آخری دنوں میں طالبان کی طرف سے حملوں میں تیزی آ گئی ہے۔طالبان نے درجنوں اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔

اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر ڈیبورا لائنز نے سلامتی کونسل کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ مئی کے بعد سے جنگجوؤں نے افغانستان کے 370 اضلاع میں سے 50 اضلاع پر قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن اضلاع پر طالبان قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان میں اکثریت اضلاع صوبائی دارالحکومتوں کے آس پاس ہیں۔

تازہ ترین کارروائیاں

افغان حکام کا کہنا ہےکہ طالبان نے منگل کے روز تاجکستان کے ساتھ افغانستان کے انتہائی اہم سرحدی راستے پر قبضہ کر لیا ہے۔ کابل میں افغان وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ سرکاری افواج نے بہت سے اضلاع پر قبضہ بحال کر لیا ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ستمبر کی گیارہ تاریخ تک مکمل ہونا ہے۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اور انہوں نے ملک کے 30 اضلاع پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انتہا پسند اسلامی گروہ نے سرکاری فوج سے بھاری مقدار میں اسلح بارود چھین لینے کے علاوہ بڑی تعداد میں افغان فوجیوں کو ہلاک اور زخمی بھی کیا ہے۔

افغان حکومت کی تردید

افغانستان کی حکومت کے ترجمان ان خبروں کی تردید کرتے ہیں کہ طالبان نے درجنوں اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اضلاع کو ایک جنگی حکمت عملی کے تحت خالی کر دیا گیا ہے اور یہ واضح نہیں کہ طالبان کو کتنا جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے پولیس کے حوالے سے خبر دی ہے. کہ طالبان نے دفاعی نکتہ نگاہ سے اہم قندوز شہر کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ افغان سکیورٹی فورسز نے اتوار کو شمال مشرقی صوبے تخار میں طالبان کے حملوں کو پسپا کر دیا اور دو اضلاع پر اپنا قبضہ بحال کر لیا تھا۔

امریکی وزارت دفاع کا بیان

امریکہ کی وزارتِ دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں صورت حال بدل رہی ہے کیونکہ طالبان ضلعی مراکز پر حملے کر رہے ہیں اور تشدد جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انخلاء کی رفتار کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے تو اس میں وہ لچک رکھنا چاہتے ہیں۔

ہم مستقل اور روزانہ کی بنیاد پر اس چیز کا جائزہ لے رہے ہیں کہ زمینی صورت حال کیا ہے. ہمیں کیا درکار ہو سکتا ہے. ملک سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا اضافی وسائل درکار ہو سکتے ہیں. اور اس کی رفتار کیا ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب اہم فیصلے وقت کے وقت کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ نے اکتوبر سنہ 2001 میں طالبان کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا تھا۔ طالبان القاعدہ تنظیم کے رہنما اسامہ بن لادن اور دیگر سرکردہ ارکان کو پناہ دیئے ہوئے تھے۔

امریکی صدر کیا کہتے ہیں؟؟

امریکہ کے صدر جو بائیڈن کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکہ کی افواج کے انخلا کا جواز ہے کیونکہ امریکی افواج نے اس بات کو یقنی بنا دیا ہے کہ افغانستان میں اب غیر ملکی انتہاہ پسند مغرب ممالک کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے جمع نہ ہو سکیں۔

پاکستان کے وزیراعظم کا موقف

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ میں منگل کو شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں امریکہ کا شراکت دار ہو سکتا ہے لیکن وہ افغانستان پر حملوں کے لیے امریکہ کو پاکستان کی سرزمین پر اڈے فراہم نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں افغانستان میں متحرب گروہوں کا ساتھ دے کر غلطی کی تھی۔ عمران خان نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ وہ ہر اس قوت کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں جس کو افغان عوام کا اعتماد حاصل ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *