سولر ڈائریکٹر نیوز
تحریر ندیم رضا
پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا 23 سال میں اپنا عروج دیکھے بغیر ہی زبوں حالی کا شکار ہو چکا ہے. جہاںاس کی تباہی و بربادی میں سیٹھوں ، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ نو دولتیوں، سیاستدانوں اور ریاست نے بڑھ چڑھ کے اپنا کردار ادا کیا ہے. وہیں نام نہاد پیراشوٹر اینکرز اور سفارشی ڈائریکٹر نیوز کا بھی انتہائی بھیانک کردار ہے.
وطن عزیز میں حقیقی معنوں میں پرائویٹ نیوز چینلز کا آغاز اگست 2002 سے ہوتا ہے. جیو نیوز کے بعد وقفے وقفے سے چینلز کی پیدائش ہوتی رہی. پھر مشروم کی طرح جگہ جگہ سے نیوز چینلز نمودار ہوئے. سگریٹ ، گھی، تعلیمی ادارے، زمینوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے والے بھی اس میدان میں کود پڑے. بس یہیں سے سیٹھ ،اٹھائی گیری اور چاپلوسی کلچر نے اپنی مضبوط جڑوں سے میڈیا انڈسٹری کو کھوکھلا کردیا.
مختلف کاروبار سے وابستہ افراد جو بعضاینکرز اور رپورٹرز سے ماہانہ تنخوا پر اپنے ناجائز کام کروایا کرتے تھے. چرب زبانی اور ٹیڑھے کام سیدھے کرنے کے عوضانہیں پھر نیوز چینلز کا صدر، سی او ،ڈائریکٹر نیوز ، کنٹرولر نیوز اور بیورو چیف لگا دیا گیا. اس صورت حال کو ریاست بھی بغور دیکھ رہی تھی. حالات یہاںتک خراب ہو چکے ہیں کہ کئی افراد تو سینئرز کے کارنامے اپنے نام سے بھی منسوب کر کے ٹیم کو بتا رہے ہیں.
مدینہ کی ریاست کی دعوے دار حکومت میں ہر حکم پر “لبیک” کی تبلیغ کرنے والے بچوں کو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ انہوںنے کس طرح ماضی میں طالبان، ایم کیو ایم، ملک ریاض اور پتا نہیں کن کن سے سینگ اڑائے ہیں۔ اب بھلا بچوں کو کیا معلوم پندرہ برس پہلے پاکستانی میڈیا کس دور سے گزرا۔ ہاں البتہ انہوں نے وہ دور دیکھا اور سنا ضرور ہوگا۔
مستقبل کی پیش بندی کرتے ہوئے غالبا 2012 سے سولر صحافیوںکی فارمنگ شروع کی گئی. سولر یا سورج مکھی صحافیوں میں نیچے سے اوپر تک ہر شعبہ جات کے افراد شامل ہیں. ہر نیوز چینلز میں مستند اور پیش ور صحافیوں اور ڈائریکٹر نیوز کی جگہ سورج مکھی صحافی بیٹھائے جاتے رہے. جنہیں ابھی خبریں اور حالات حاضرہ سمجھنے اور پڑھنے کی ضرورت تھی انہیں نیوز چینلز میں اعلی عہدوں پر بٹھا دیا گیا. یہ ہی وجہ ہے کہ نیوز چینلز اور ان پر بیٹھے اینکرز و تجزیہ کار ٹکہ ٹوکری ہو چکے ہیں.
عوام بھی انہیں سنجیدہ لینے کو تیار نہیں. ناظرین پر سب کچھ واضح ہو چکا ہے کہ کون سا اینکر، تجزیہ کار اور رپورٹرکس کے پے رول پر کام کر رہا ہے. کہاںسے ہدایت لے کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے.آج ہر کوئی آکر کہہ رہا ہے کہ میں نیا پہیہ ایجاد کروں گا۔ حالانکہ پہیہ ہزاروں سال پہلے ہی دریافت کیا جاچکا ہے۔ مسئلہ کے حل کے لیے ایک ہی طریقہ باربار آزمایا جا رہا ہے۔ بھائی اسی ایک طریقے سے نتائج وہی آئیں گے جو آ رہے ہیں۔
پھر اسٹیبلشمنٹ کو شوق چڑھا کہ اب تبدیلی سیاست اور صحافت کا مقدر ہے۔رئیل اسٹیٹ، پیراشوٹرز، سفارشیوں اور بلیک میلرز کی وجہ سے میڈیا انڈسٹری داغ دار اور اپنی افادیت بھی کھو چکی ہے. اور تو اور ایسے بھی پیشہ ور کاریگر ہماوقت مارکیٹمیں سرگرم رہتے ہیں جو نئے چینلز مالکان کو پہلے ہی دن سے اشتہارات کی بھرمار اور طاقتور کوریڈور میں تعلقات کے سبز باغ دکھا کر کھڑا ہونے سے پہلے ہی گرادیتے ہیں. ایسے افراد سے متعلق کہا جاتا ہے گاؤں بستا نہیں لٹیرے پہلے آجاتے ہیں.
بہرحال بات کہیں سے کہیں چلی گئی وآپس آتا ہوں میڈیا کے حالات، سورج مکھی صحافیوں کی افزائش اور نئے غازی صحافیوں پر. آج آپ کو جتنے زیر عتاب سولرصحافی نظر آ رہے ہیں ان کو دوران تربیت فائیلیں دکھائی گئیں۔ دکھانے کی حد تک اس لیے کہ سوچنا ان کا کام نہیں تھا۔ بیچارے یہ بھی بغیر سوچے سمجھے فائیلیں بغل میں دبائے پرانے نظام پر ٹوٹ پڑے۔
آج وہ کہتے ہیں ان کا کوئی قصور نہیں ہے دیکھا جائے تو ٹھیک ہی کہتے ہیں یہ تو بے چارے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ وقت بدلا نیا سورج طلوع ہوا تو سولر صحافی پھنس گئے. اتنی جلدی کہاں وہ رخ موڑ سکتے تھے۔ کروڑوں کروڑوں والے نسبتا بہتر سولرز نے روشنی جلدی پکڑ لی۔ باقی جو بچے ان کو تھوڑی دیر کے لیے ہلکی آنچ پر رکھنے کا فیصلہ ہوا تاکہ وہ “ویکٹری سائن” دو انگلیوں کو اٹھا کر وڈیو بنائیں۔ انہوں نے بھی آگے کہنا ہے کہ وہ سولر صحافی نہیں ہیں اور انہوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ ایسی ایسی اذیتیں برداشت کی ہیں کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
یہ لکھتے ہوئے مجھے خیبرپختونخوا کے حیات اللہ سے لے کر موسی خان خیل، کراچی میں ولی خان بابر اور وفاقی دارالحکومت میں سلیم شہزاد کی میتیں یاد آئیں۔ ہم نے 100 سے زاید صحافیوں کواٹھایا ہی نہیں دفنایا بھی ہے. لیکن آج کی اس نسل کو کچھ بھی یاد نہیں ہے۔پشاور پریس کلب پر تو خود کش حملہ تک ہوا لیکن انہیں تو موجودہ نسل کی ہارڈڈسک سے مٹا دیا گیا ہے۔ اب نئے ڈرامے کے نئے غازی تیار کیے گئے ہیں جن کے اتالیق آگے کئی سالوں تک اس نظام میں موجود رہیں گی۔
نئے غازیوں سے مراد ایسے افراد ہیںجنہیں بغیر کسی ثبوت اور تیاری کے گرفتار کرلیا یا اٹھالیا جاتا ہے پھر وہ ہی دو تین روز بعد ہاتھ لہراتے ہوئے باہر آجاتے ہیں. سوشل میڈیا پر ایسے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے. پیکا قانون کے تحت غیرموثر افراد کو گرفتار کر کے ہیرو بنایا جارہا ہے.
ملکی نظام اور مخصوص نرسریوں پر نگاہ رکھنے والے سینئر صحافی کا ماننا ہے کہ ہر دور میں انہی نرسریوں سے اداروں کو کمک فراہم کی جاتی رہی ہیں. تاریخ گواہ ہے کہ سولر نظام کے تحت آنے والے سیاست دان ہوں یا صحافی! وہ نظام کو مستحکم کرنے کے بجائے کھوکھلا ہی کرتے آئے ہیں. کیونکہ وہ غیرمعمولی حالات کا مقابلہ اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں. ایسے لوگ ہمیشہ سے ریاست کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے چلے آرہے ہیں. ڈرو اس وقت سے جب آج ان کے یہ وکٹری سائن والے ہاتھ انہی چینلز پر دکھا کر کہیں گے کہ ہم ہی تھے اس وقت کے افلاطون، کیونکہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اور کیا پتا اس وقت کے لیے یہ ساری ایکسرسائز کی جا رہی ہو۔
مخصوص ہاتھوں سے نکلنے والے سیاستدان، صحافی اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز آج تک ملکی مفاد میں مثبت اور تعمیری بیانیہ بنانے میں کامیاب نہیںہوسکے. اہل کی جگہ جب نااہل کو بٹھایا جائے گا تو وہ اپنی ٹیم بھی پیٹ بھر کے نااہل لوگوںپر مشتمل ہی بنائے گا کیونکہ وہ کبھی اپنے نیچے اہل کو رکھ کے موت کو دعوت نہیں دے سکتا۔
سیٹھ میڈیا مالکان اور ریاست کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ہم عصر صحافی اور ڈائریکٹر نیوز پرانے ائیر کنڈیشنز کی طرح کونے کھدروں میں پڑے ہیں. کہتے ہیں کہ پرانے اے سی کی کارکردگی تو بہت زبردست ہے لیکن یہ مہنگے ہیں اور سوال بھی اٹھاتے ہیں. زیادہ آواز بھی نکالتے ہیں اور بجلی بھی معمول سے زیادہ کھاتے ہیں. ویسے بھی ریاست کے پاس توانائی کی شدید قلت ہے. اسی لیے انہیں سولر میڈیا اور سولر ڈائریکٹر ز نیوز ہی وارا کھاتا ہے. سرکاری میڈیا کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں. اب بھی بیانیہ مشینری نوسربازوں کے سپرد کی جارہی ہیں. پھر کہتے ہیں کہ ملک کا کیا ہوگا؟بیانیہ بن نہیں پا رہا ہے؟ نئے قوانین بننے چاہیں. قوانین بھلے ہی نئے بنیں لیکن اس کو چلانے والے تو پرانے ہاتھ ہی ہیں نا۔ہماری بے بسی دیکھو کہ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے۔
یہ ہاتھ ہمیں دے دو ٹھاکر۔۔۔