سپریم کورٹ نے اپنی سماعت میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو ایک گھنٹے میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے خلاف اپیل کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
بتائیں درخواست گزار کہاں ہے؟ چیف جسٹس عمر عطابندیال کا سوال، وکیل نے عدالت کو جواب دیا کہ درخواست گزار نیب کے پاس ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے لیڈرز کو بتادیں یہاں صرف وکلا اور صحافی ہوں گے۔ کوئی سیاسی رہنما اور کارکن عدالت نہیں آئے گا۔
امن وامان کی صورتحال، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پاک فوج کی خدمات طلب
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈائری برانچ سے رینجرز اہلکاروں نےعمران خان کو گرفتار کیا گیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈھائی بجے معاملے پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے عدالت سے سوال کیا کہ کہ کیا کیس ہائیکورٹ میں لگا ہوا تھا؟ وکیل نے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ ضمانت کی درخواست سماعت کےلیے مقرر تھی۔
اسدعمر کو اسلام آبادہائیکورٹ کےباہر سے گرفتار کرلیا گیا
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا نیب کئی سال سے یہ حرکتیں منتخب نمائندوں کے ساتھ کررہا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ نیب کا یہ تاثر ختم ہو، کیا ہائیکورٹ کا عمل مکمل ہوچکا تھا؟َ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پولیس نے عمران خان کی گرفتاری کے لئے اجازت لی تھی۔؟ گرفتاری کے بعد جوہوا اسے رکنا چاہیے تھا۔ درخواست گزار عدالتی سسٹم میں داخل ہوا۔ اس نے اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیرقانونی اقدام سے نظر چرائی جاسکے۔ ایسا فیصلہ دینا چاہیے جس کا اطلاق سب پرہو۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا کہ انصاف تک رسائی ہرملزم کا حق ہے۔ ایک سو لوگوں کے داخلے سے احاطہ عدالت میں خوف پھیل جاتا ہے۔ عموما ملزم کے ذہن میں یہ پوتا ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں۔ جو اس کی زندگی اور حقوق کا تحفظ کررہی ہے ۔
عمران خان کےوکیل حامد خان نےکہاکہ عمران خان کو ڈائری برانچ سے رینجرز اہلکاروں نے گرفتار کیا،چیف جسٹس نے کہا ۔۔۔لگتا ہے عمران خان
ایک درخواست دائر کرنا چاہتے تھے اس لئے بائیو میٹرک کے کمرے میں موجود تھے۔
عمران نیازی نے ملک دشمنی کا ناقابل معافی جرم کیا ہے، وزیراعظم کا قوم سے خطاب
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ۔۔۔ کیا جب کوئی شہری عدالتی احاطے میں اپنا حق استعمال کرنے کےلئے موجود ہو تو کیا اس کے ساتھ ایسا کیا جا سکتا ہے؟جب کوئی شخص عدالتی احاطے میں داخل ہو تو وہ بظاہر عدالت کے سامنے سرنڈر کرتا نظر آتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا ۔۔۔اس سارے واقعے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار سے پوچھنا چاہئے۔ باہر جو کچھ ہورہا ہے وہ فوری طور پر رک جانا چاہئے۔ انصاف کےلئے ضروری ہے کہ عدالت میں تحفظ ملنا چاہیے۔ ہم اس کیس میں اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان پر توشہ خانہ کیس میں آج فرد جرم عائد کی جائے گی
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کا کیس یہ ہے کہ جب کوئی شخص عدالتی احاطے میں داخل ہو تو اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ۔۔۔ہم سیاسی لوگوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ سیاسی معاملات عدالتوں میں نہ لائیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لیڈر شپ کو اپنے فالورز کو روکنا چاہئے۔ نیب ایسے کئی سالوں سے کر رہا ہے۔ منتخب عوامی نمائندوں کو تضحیک سے گرفتار کیا۔ یہ طریقہ کار بند کرنا ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ۔۔۔ہم اس وقت صرف عدالت کی عزت اور انصاف کی فراہمی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔