صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ کرانے پر پہل کرنے کا بول دیا۔ کہا تمام فریق راضی ہوں تو پریذیڈنٹ ہاوس کردار ادا کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈائیلاگ اسی صورت ممکن ہے جب تمام فریق راضی ہوں۔ بطور صدر مملکت میری پاس اختیار نہیں کہ میں کسی کو کہوں کہ ڈائیلاگ کرو۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ای وی ایم ،نیب کی سمری پر میری عمران خان سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ عمران خان سے واٹس ایپ پر بات ہوتی ہے۔ عمران خان سے آخری بات تب ہوئی تھی جب گورنر پنجاب کا ایشو ہوا تھا۔
صدر مملکت کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ میں نے نہ آئین توڑا ہے نہ غداری کی ہے۔ جس نے غداری کی ہے اس پر آرٹیکل 6 ضرور لگائیں۔ انہوں ںے کہا کہ ذاتی حیثیت میں سمجھتا ہوں کہ کلئیر مینڈیٹ بہت ضروری ہے وقت کوئی بھی ہو۔
نیب ترمیمی بل،الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور گورنرپنجاب سے متعلق سمریاں میں روکیں۔ ان سمریوں کو روکنے پر مجھے کسی طرف سے کوئی دباو نہیں تھا۔ میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے اس لئے ان چند سمریوں کو میں نے روکا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے اس نے مجھے 74سمریاں بھیجیں۔ 74میں سے 69سمریاں اسی دن دستخط کرکے بھجوادیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ میرے وزیر اعظم سے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔
ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو نے امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ امریکا پاکستان سے تعلقات ختم کرنا نہیں چاہتا۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی خط پر اگر تحقیقات کیں ہیں تو عوام میں لانا چاہئے۔