تاریخ کا اپنا ہاری سمجھنے والے– کالم محمود شام

MEHMOOD SHAM COLUMN

تاریخ سے سبق سیکھنے کی روایت تو ہمارے ہاں ہے ہی نہیں۔ تاریخ ہمیں سمجھانے کی کوششیں کرتی ہے۔ غلط راستوں پر چلنے سے روکتی ہے لیکن جب بھی ہمیں تاریخ کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو ہم اسے اپنے سیاسی یا دفتری کارکن سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ زیادہ سے زیادہ اسے ایک کھلونا سمجھ لیتے ہیں اور جس طرح اپنے مزار عین اور ہاریوں سے کھیلتے ہیں،تاریخ سے بھی اسی طرح کھیلنے کو اپنی فتح خیال کرتے ہیں۔

کوئی سرگوشی کردیتا ہے۔ تو ہم ریاستِ مدینہ کا ورد کرنے لگتے ہیں۔ جیسے یہ بھی موبائل فون پر کوئی وڈیو گیم ہے۔ ’ریاست‘ کی اصطلاح کا کوئی ادراک نہ ’مدینے‘ کے مقدس لفظ کا احترام۔ کسی سے کوئی Concept Paper بنوایا نہ تحقیق کی ہمارے ماں باپ ۔ ہم ۔ ہماری آئندہ نسلیں اس ہستی پر قربان جس نے ریاست مدینہ بسائی۔ ہم تو ان کے ساتھیوں کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہیں۔ گزشتہ 15صدیوں میں اموی۔ عباسی۔ عثمانی حکمراں ریاستِ مدینہ قائم نہ کرسکے۔ اب ہم تاریخ سے نا بلد۔ فقہ سے گریزاں۔ شریعت کے نا خواندہ ریاستِ مدینہ کی مقدس اصطلاح استعمال کرکے اپنے آپ سے بھی فریب کررہے ہیں۔ لوگوں کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں۔ تاریخ کو ہراساں کررہے ہیں۔ جغرافیہ گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ جاتا ہے۔

1970کی دہائی میں ہم غریبوں ناداروں کو ورغلانے کیلئے’نظامِ مصطفیٰؐ‘ کی مقدس اصطلاح لے آئے تھے اور ایک سفاک ڈکٹیٹر پر اکتفا کرکے بیٹھ گئے۔ کچھ نے نعرہ لگایا ’مساواتِ محمدیؐ‘۔ تاریخ اور خاص طور پر تاریخ اسلام ایسی دھوکہ دہی سے سخت ناراض ہوتی ہے۔ ہم شاید بے خبر ہیں کہ تاریخ اور جغرافیے کا انتقام بہت بھیانک ہوتا ہے۔ ہمارے بہت سے قافلے ان گھاٹیوں سے باہر نہیں نکل سکے۔ ہمارے بہت سے دانشور ان گہرائیوں میں گم ہوچکے ہیں۔

الفاظ، اصطلاحات اورتراکیب بھی سانس لیتی ہیں۔ ان کے اپنے مزاج ہوتے ہیں۔ انہیں کئی نسلیں ایک مفہوم عطا کرتی ہیں۔ ان کو اگر بغیر سوچے سمجھے استعمال کیا جائے تو یہ بازی بھی پلٹ دیتی ہیں۔کئی برس سے ہماری بہت سی سیاسی مذہبی جماعتیں ملین مارچ کی صف آرائی کا دعویٰ کرتی آرہی ہیں۔ پریس کانفرنسیں۔ پوسٹر۔ پینا فلیکس۔ سوشل میڈیا پر ملین مارچ۔ کیا یہ خود فریبی نہیں ہے؟

ملین مارچ کی اصطلاح واشنگٹن سے آئی تھی۔ نیشن آف اسلام کے سربراہ لوئیس فارا خان نے واشنگٹن میں سیاہ فاموں کو جمع کیا تھا۔ 16اکتوبر 1993کو امریکہ کے دل نیشنل مال کے ارد گرد فارا خان نے اس کے لیے مہینوں محنت کی۔ وہ بوسٹن کی مسجدوں کے منسٹر رہے۔ یہودی انہیں نا پسند کرتے تھے۔ ہٹلر کا لقب دیتے تھے۔ اس مارچ میں نیشن آف اسلام کے کارکن بھی تھے اور افریقی نژاد امریکی بھی۔ امریکی سیاہ فاموں کے بارے میں نیا تصوّر پیش کرنا چاہتے تھے۔ ان پر اعتراض ہوا تھا کہ وہ ایک ملین جمع نہیں کرسکے۔ نیشنل پارک سروس نے تعداد 4لاکھ بتائی۔ اے بی سی ریڈیو کی تحقیق نے آٹھ لاکھ 37ہزار بتائے۔ اس مارچ کے منتظمین ملین سے بہت زیادہ 15لاکھ سے 20لاکھ کے درمیان کا دعویٰ کررہے تھے۔

اس مارچ سے امریکی سیاہ فاموں کا حوصلہ بڑھا۔ پھر وقت آیا کہ ایک سیاہ فام امریکی صدر بھی بن گیا۔ ہمارے ہاں کتنی ہی جماعتوں نے ملین مارچ نکالےلیکن صحیح معنوں میں ایک لاکھ بھی جمع نہ کرسکے۔ کیا یہ دروغ گوئی نہیں ہے۔ لوگوں کو دھوکہ دینا نہیں ہے۔اب لانگ مارچ کی اصطلاح استعمال ہورہی ہے۔ 26مارچ کا دن مقرر کیا گیا ہے۔ یہ وہی دن ہے جب 1971میں جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن شروع کیا۔ جو بالآخر 16دسمبر کو تاریخ اسلام کی بد ترین شکست پر منتج ہوا۔ 26مارچ کو بنگلہ دیش یوم آزادی مناتا ہے۔ پی ڈی ایم نے کیا جان بوجھ کر یہ تاریخ منتخب کی ہے۔ یا ان کے ذہن میں کچھ اور ہے؟ لانگ مارچ کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ یہ چین میں 16اکتوبر 1934سے شروع ہوکر 19اکتوبر 1935کو ختم ہوا تھا۔ اس کے آغاز میں قیادت اور لوگ کررہے تھے۔ انجام میں قیادت چیئرمین مائوزے تنگ کی تھی۔ زیانگ سی صوبے سے شروع ہوکر شان کسی صوبے میں ختم ہوا۔ 370دن ۔9000کلو میٹر کا فاصلہ مغربی چین کے دشوار گزار۔ خطرناک علاقے۔ کبھی تعداد ایک لاکھ۔ کبھی تین لاکھ۔ سرخ فوج کے 69ہزار چلے۔ مگر منزل مقصود پر 7ہزار سرخ سپاہی پہنچے۔ شروع یہ بھی پسپائی سے ہوا تھا جس سے اب پی ڈی ایم دوچار ہے۔ اس وقت گھوڑے خچر اور گدھے سواری تھے۔ اب پر تعیش گاڑیاںہوں گی۔ دشوار گزار گھاٹیوں کی جگہ آرام دہ موٹر وے۔

کیا ایسی ریلی کے لیے لانگ مارچ کی اصطلاح مناسب ہے۔ کیا لانگ مارچ کے لغوی۔ لفظی اور تاریخی معانی کا ہمیں ادراک ہے۔ کیا ہمارا جذبہ ویسا ہی صادق اور مخلصانہ ہے جو مائوزے تنگ کا تھا۔ جو چو این لائی کا تھا۔ ہم کیا چانگ کائی شیکوں کا راج ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یا واپس لانا چاہتے ہیں۔ کیا چین کے لانگ مارچ کی طرح ہم پیٹ پر پتھر باندھ کر نکل رہے ہیں؟

لاہور کے جلسے میں جب ’آر یا پار‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ۔ اس میں کتنی گھن گرج تھی۔ لگتا تھا کہ ہم واقعی فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئے ہیں۔ ہم تو کیا یہ دونوں الفاظ‘ آر‘ یا ’پار‘ بھی بڑی بے تابی سے انتظار کررہے تھے کہ انہیں کب سر خرو ہونے کا موقع ملتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جدوجہد وہی کامیاب ہوئی جہاں الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا۔ الفاظ کی اپنی عمر ہوتی ہے۔ ہر اصطلاح کی اپنی ترتیب ہوتی ہے۔ اپنے مراحل۔ کلائمیکس۔ اپنے وقت پر ہوتا ہے۔ پہلے سے اس کا استعمال اپنا اثر کھو دیتا ہے۔ ہم اصطلاحات کا استعمال بے دریغ کرتے ہیں۔ کشمیر کو شہ رگ کہتے ہیں۔ 74سال سے ہم شہ رگ کے بغیر زندہ ہیں۔ ہے نا ہمارا کمال۔ اب لانگ مارچ پر نکلنا چاہتے ہیں۔ اندر سے خواہش یہی ہے کہ یہ چیف جسٹس افتخار کی بحالی والے لانگ مارچ کی طرح شارٹ ہوجائے۔ تاریخ کہہ رہی ہے کہ براہ کرم میرے ساتھ مزید نہ کھیلیں۔

بشکریہ جنگ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *