پانچ فروری کشمیریوں سے یکجہتی کا دن ہے۔ یہ دن انیس سو نوے سے ہر سال یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دن کو منانے کا مقصد وادی میں بھارتی مظالم کےخلاف آواز بلند کرنا ہے۔ کشمیری بہن بھائیوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ پاکستان حق خود ارادیت کی جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
پوری قوم 5 فروری کواس عزم کااظہارکرتی ہے کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حصول تک ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
کشمیریوں کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے، آرمی چیف کا بیان
اکیس جنوری 1990 تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے. جب بھارت کی قابض افواج نے اپنے حق کےلیے آواز اٹھانے والے کشمیریوں کوبربریت کا نشانہ بنایا۔سرینگرسمیت پوری وادی میں احتجاج جاری تھا کہ بھارتی فوج نہتے مظاہرین پرٹوٹ پڑی۔فائرنگ اورتشدد سے 51 معصوم کشمیریوں کی جان چلی گئی۔
کشمیرمیں کھیلی گئی خون کی ہولی پرانسانیت کانپ اٹھی۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے مطالبہ کیا کہ ایک ایسا دن منایا جائے جو کشمیریوں کے ساتھ تجدید عہد کےلیے ہو۔ اس وقت مرکزمیں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ محترمہ بینظیربھٹو شہید وزیراعظم اور نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ قاضی حسین احمد کے مطالبے کی وفاق سمیت تمام صوبوں نے حمایت کی اورپہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو یوم یکجہتی کشمیرمنایا گیا۔
اس دن کی مناسبت سے جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ سرکاری و نجی سطح پرتقریبات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ اور کشمیر کی آزادی تک یہ تحریک جاری رہے گی.
مسئلہ کشمیر کے حل کےلیے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔لیکن آج تک ان پر عمل نہیں ہوسکا۔پاکستان تسلسل سے اس مسئلے کوعالمی سطح پراجاگرکرتا آرہا ہے۔
سال 2019 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے کشمیرپردوٹوک موقف اپنایا۔
ہتھیار اٹھانے کی بات کرنے والے کشمیریوں سے دشمنی کررہے ہیں، عمران خان
بھارت نے 5 اگست 2019 کو کشمیریوں پرمظالم کی انتہا کرتے ہوئے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کردی۔مودی سرکار نے لاکھوں غیرکشمیریوں کو وادی میں بسانے کے ناپاک منصوبے پرعمل شروع کردیا۔ جس کےخلاف پوری دنیا میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
پانچ اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کے غیرقانونی اقدام کے بعد سے یوم یکجہتی کشمیر کی اہمیت میں اضافہ ہوچکا ہے۔