باجوڑ دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 44 ہو گئی۔ 150 افراد زخمی ہوئے۔ جے یو آئی کے ضلعی امیر مولانا ضیا اللہ بھی جاں بحق ہونے والوں میں شامل ہیں۔ دھماکے کے بعد تیمر گرہ اسپتال میں ایمرجنسی نافذ ہے۔ فوج کے ہیلی کاپٹرز سے بھی زخمیوں کو منتقل کیا گیا۔ پولیس حکام نے کہا خودکش بمبار نے اسٹیج کے قریب خود کو اڑایا۔
باجوڑ کی تحصیل خار کا علاقہ شنڈئی موڑ ۔اُس وقت دھماکے سے گونج اٹھا جب۔۔۔وہاں جے یوآئی کا ورکرز کنونشن شروع ہی ہوا تھا ۔پولیس کا کہناہے ابتدائی معلومات کے مطابق دھماکا خودکش تھا اور خودکش بمبار نے اسٹیج کے قریب خود کو دھماکے سے اڑایا-
سیکیورٹی فورسز نے موقع پر پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور امدادی سرگرمیوں میں ریسکیو عملہ کی مدد کی۔ دھماکے کے زخمیوں کو تیمرگرہ اور پشاور کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ دھماکے کے اکسٹھ زخمی صوبے کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔
آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات خان کا کہنا ہے- باجوڑ دھماکا خودکُش تھا۔ دھماکے میں دس کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ جائے وقوعہ سے بال بیئرنگ برآمد ہوئے ہیں۔ دھماکے میں ہائی ایکسپلوسیو استعمال کیا گیا
نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان نے سی ایم ایچ پشاور کا دورہ کیا- زیر علاج زخمیوں کی عیادت کی وزیر اعلیٰ نے اسپتال انتظامیہ کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں ںے کہا کہ واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔
ادھر باجوڑ دھماکے میں شہید ہونے والے پانچ افراد کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ جے یو آئی کی تحصیل خار کے امیر مولانا ضیاء اللہ اور سیکرٹری اطلاعات مولانا مجاہد خان اور ان کے بیٹے کی نمازجنازہ آبائی علاقے حاجی لونگ میں ادا کی گئی۔
جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ورکر کنونشن میں دھماکے پر شدید دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر وزیراعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان اور مولانا اسعد محمود کو فون کرکے دھماکے پر افسوس اور جانی نقصان پر تعزیت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے گی۔