اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان پر 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر یہی الفاظ اور ٹون ایک سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں استعمال ہوتی تو اپ ایسا ہی جواب جمع کرواتے ؟ کیا سابق وزیراعظم یہ جواز پیش کر سکتا ہے کہ اسے قانون کا علم نہیں تھا؟ ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے کی۔
وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیسز کے بعض حوالہ جات بھی پیش کیے ہیں، عبوری جواب میں عدالت نے جن دو مقدمات کا حوالہ دیا تھا ان میں اور موجودہ کیس میں فرق واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ توہین عدالت تین طرح کی ہوتی ہے جسے فردوس عاشق اعوان کیس میں بیان کیا گیاہے، دانیال عزیز اور طلال چودھری کے خلاف کریمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی، ان کے خلاف عدالت کو سکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا، آپ کو یہ چیز سمجھائی تھی کہ یہ معاملہ کریمنل توہین عدالت کا ہے، زیر التوا مقدمے پر بات کی گئی، آپ کا جواب پڑھ لیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بائنڈنگ ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو سوچ کر جواب دینے کی ہدایت کی تھی، کریمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس کیس سے ماتحت عدلیہ کا احترام اور مورال جڑا ہے، ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر کسی جج کے فیصلے سے متاثر ہوں تو اسکا طریقہ کار قانون میں موجود ہے، توہین آمیز بات کون اور کہاں کرتا ہے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے، ہم سوسائٹی اتنی پولرائز ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بےعزت کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہی کام وہ اس جج کے ساتھ کریں تو پھر کیا ہو گا؟ کیا یہ انداز کسی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ عدلیہ کی آزادی اس عدالت کی اولین ترجیح ہے، ہم نے وکلاء تحریک سے کچھ بھی نہیں سیکھا، کیا آپکا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ہے؟ آپ نے اپنے جواب میں اپنے عمل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
عمران خان کے وکیل حامد خان ہم نے جواز نہیں وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کوئی سابق وزیراعظم قانون کو نظرانداز کر سکتا ہے؟ کیا سابق وزیراعظم یہ جواز پیش کر سکتا ہے کہ اسے قانون کا علم نہیں تھا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جواب میں بھی لکھا کہ شہباز گل پر تشدد ہوا مبینہ تشدد کا لفظ استعمال نہیں کیا ، کیا فیصلے اب جلسوں میں ہونگے یا عدالت میں؟ اگر یہی الفاظ اور ٹون ایک سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں استعمال ہوتی تو آپ ایسا ہی جواب جمع کرواتے ؟
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ شوکاز نوٹس میں کریمنل نوٹس کا واضح لکھا ہے۔ عدالت میں حامد خان نے ضمنی جواب عدالت کو پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جواب میں جسٹیفائی کررہے ہیں کہ ٹارچر ہوا ہے، آپ بتائیں کہ کیا سپریم کورٹ کے جج کے حوالے سے بھی یہ الفاظ اور ٹون استعمال ہوتی تو آپ یہ جواب دیتے ؟ ستر سالوں میں جو ہوا اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت بہت ہی محتاط رہتی ہے، یہاں فرق ہے سپریم کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز کا وہ مشکل حالات میں کام کرتے ہیں۔
وکیل نے کہا کہ ہم نے لکھا کہ ہماری وجہ سے اگر خاتون جج کے جزبات مجروح ہوئے تو ہم شرمندہ ہیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جج کے کوئی احساسات نہیں ہوتے وہ صرف عدلیہ کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ ہمارے لئے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل عزت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماتحت عدالت کے ججز ہم سے اور سپریم کورٹ کے ججز سے زیادہ اہم ہیں، خاتون جج لاہور جا رہی ہونگی موٹروے پر کھڑے ہوئے کوئی واقعہ ہو سکتا ہے، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو؟ عدالت آپ کو سمجھا رہی ہے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کیا ایک رہنما ایک جج کے خلاف قانونی کارروائی کی بات عوامی جلسے میں کرسکتا ہے؟ جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ دھمکی آمیز تھے۔
جسٹس بابر ستار کے سوالات پر عمران خان کی شعیب شاہین کو ہدایت ، عمران نے کہا کہ میں روسڑم پر آنا چاہتا ہوں، حامد خان سے پوچھو میں روسٹرم پر آنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جواز دے کر چاہ رہے ہیں کہ کاروائی آگے بڑھائی جائے یہ رسکی بات ہے، ہم پر تنقید ہوتی رہی ہے ہم نے کبھی توہین عدالت کی کروائی شروع نہیں کی ، ہم آپ کو بار بار کہہ رہے کہ یہاں حالات مختلف ہیں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ عمران خان ایک جلسے میں کھڑے ہو کر ایک جج کو دھمکی دیتے ہیں اور کہتے ہیں تمہیں خود پر شرم آنی چاہیے۔ بطور لیڈر آپ کے الفاظ کے اثرات ہیں آپ ان اثرات کو جانتے ہوئے بھی جلسوں میں ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
اگر درخواست گزار کو ان پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ پسند نہ آئے تو جلسے میں اس کے خلاف بات کریں گے، اس لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف کیا جلسے میں کہا جائے گا کہ آپ کے خلاف ایکشن لیں گے، آپ کے موکل کو احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟
یہ بھی پڑھیں:
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے یہ بتائیں کہ مدینہ منورہ میں کیا ہوا تھا؟ آپکا جواب صرف ایک جسٹیفیکیشن ہے اور کچھ نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور فتح مکہ سے ہمیں سیکھنا چاہیے، ایک خاتون ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں کیسے الفاظ استعمال کئے گئے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ شہباز گل کیس میں پی ٹی آئی کی درخواست پر میڈیکل بورڈ بنایا گیا، میڈیکل ایکسپرٹس کی کسی میڈیکل رپورٹ میں شہباز گل پر تشدد ثابت نہیں ہوا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ اپنے جواب میں تشدد کو مبینہ ہی لکھ دیتے، کیا فیصلے اب پرسیپشنز کی بنیاد پر ہونگے۔ عمران خان کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ شہباز گِل پر تشدد سے متعلق ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس معاملے پر نہ جائیں اس طرف جا کر آپ اپنے کیس کو مزید مشکل بنا دینگے، ہم نے آپکو قائم مقام چیف جسٹس کا آرڈر پڑھ کر سنایا، وہ کیس اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھا۔
حامد خان نے جواب دیا کہ عمران خان نے جواب میں لکھا ہے کہ انہیں اسکا علم نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں نہ جائیں اس آرڈر شیٹ میں آپکی پوری لیگل ٹیم کا نام لکھا ہے، سب موجود تھے، ہم نے بہت سی چیزوں کو چھوڑا تھا لیکن آپ خود انکا حوالہ دے رہے ہیں۔
عدالت نے حامد خان کو ہدایت کی کہ آپ اپنے دلائل مکمل کریں۔
وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کہتی ہے کہ ججز کے جذبات نہیں ہوتے لیکن ہم پھر بھی انسان ہیں، عمران خان نے افسوس کا اظہار کیا کیونکہ دھمکی دینا انکا مقصد نہیں تھا، عمران خان خواتین کے حقوق کیلئے ہمیشہ کھڑے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک خاتون کی بات نہیں، ماتحت عدالت کی ایک جج کی بات ہے، وکیل نے موف اپنایا کہ سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ایک خاتون جج سے متعلق یہ بات کی گئی، آپ کے ریمارکس سے عدلیہ کے بارے میں عوام کی غلط پرسیپشن بن رہی ہے، جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کون بنا رہا ہے پرسیپشن بتائیں ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سیاسی جماعتوں نے اپنے کارکنان کو کبھی سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ کرنے سے روکا ؟ عدلیہ آج سب سے زیادہ اس جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ نے جواب کے پیرا 4 میں لکھا کہ آپ کو علم تھا کہ یہ ایک زیر التواء مقدمہ ہے، جانتے ہوئے بھی کیا ایسی بات کی جاسکتی تھی، جواب میں یہ بھی لکھا گیا کہ عمران خان کو معلوم تھا کہ اپیل دائر کی جائے گی، کیا عمران خان اپنے بیان سے اس عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے تھے؟
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جب عمران خان کو معلوم تھا کہ اپیل دائر ہو گی تو کیا ایسا کہنا درست تھا، کیا ایسا کہنا اسلام آباد ہائیکورٹ پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں تھی؟ طلال اور دانیال عزیر کیس میں عدالت کو اسکینڈلاز کرنے کی کوشش کی گئی تھی پھر بھی سزا ہوئی۔ ان کیسز میں تو ہم نے نوٹس بھی نہیں لیا تھا۔
ہمیں عدالت یا ججز کو سکینڈلائز کرنے سے فرق نہیں پڑتا، نہال ہاشمی کیس کی سنگینی کم تھی لیکن سپریم کورٹ نے پھر بھی انہیں سزا دی، ہم توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں تو روزانہ وہی کرتے رہیں، ہم نہیں کرینگے، یہاں کرمنل توہین عدالت ہے جس پر دنیا بھر میں نوٹس لیا جاتا ہے ہم بھی لیں گے، اس توہین عدالت سے عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد اٹھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے فواد چوہدری کے خلاف ایک درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کی تھی۔ وہ نہال ہاشمی کیس سے زیادہ سنگین توہین عدالت ہے لیکن ہم نوٹس نہیں لیں گے، آپکو معلوم ہے وہ کیا کہتے ہیں؟ کیا کیا چیزیں ریکارڈ پر لائی گئی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم ہائیکورٹ کے باہر لوگ لے آئیں گے، وہ دھمکی دے رہے ہیںں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ ہماری گزارش ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے، عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ عمران خان آئندہ مزید محتاط رہیں گے۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے معاف کیا یہ سمجھتے ہیں بار بار وہی کریں بار بار معافی ہو، عمران خان کو اس بار صرف نوٹس نہیں شوکاز نوٹس ہوا تھا ، شوکاز نوٹس کا جواب بیان حلفی کے ساتھ آجانا چاہیے تھا، جواب کے ساتھ کوئی بیان حلفی موجود نہیں ہے، میرے پاس عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ ہے، اُس تقریر کے بعد والی تقریر کی ریکارڈنگ بھی میرے پاس ہے، میں سی ڈی اور ٹرانسکرپٹ ریکارڈ پر پیش کر دوں گا، عمران خان نے دوبارہ انہی خاتون جج کا حوالہ دیا۔
منیر اے ملک نے کہا کہ توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اسے استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ توہین عدالت میں سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں لیکن یہ بات بھی مگر اپنی جگہ ہے کہ توہین عدالت کا قانون مسلسل نمُو پذیر ہے، عدالت سے باہر کہی گئی کوئی بات اسلام آباد ہائیکورٹ پر اثر انداز نہیں ہوسکتی اور میں آخری شخص ہوں گا جو مانوں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر تقریر کا اثر پڑا۔
انہوں نے کہا کہ اسلم بیگ کیس میں ایک زیر التوا کیس میں سپریم کورٹ کو پیغام بھیجنے پر کارروائی ہوئی اور مجھے لگتا ہے جو بیان دیا گیا وہ جوش خطابت میں غلطی ہو گئی۔ توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پر ختم ہو سکتی ہے ایک یہ کہ معافی پر کارروائی ختم ہوتی ہے اور دوسرا کنڈکٹ پر۔ یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کیلئے احترام کا اظہار کیا گیا اور اسلم بیگ نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ سے معافی بھی نہیں مانگی تھی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اسلم بیگ کون تھے؟ چلیں آگے چلیں۔
منیر اے ملک نے عمران خان پر توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا کر دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یقین کریں گے کہ ماتحت عدلیہ کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ جیسا سلوک ہو گا اور آخری سماعت پر بھی کہا تھا کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے۔ ایک خاتون جج کا نام لیا گیا، شیم کیا گیا، کیا آپ چاہتے ہیں اس کو صاف کیا جائے۔
سماعت کے دوران عدالتی معاون مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں عمران خان کا جواب توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کے لیے کافی ہے؟
منیر اے ملک نے کہا کہ میرا خیال ہے عدالت کو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کارروائی کو ختم کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اظہار رائے کی آزادی کے حامی ملک میں کیا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ بلاک ہونا درست تھا؟ اور ایک رہنما کا معاشرے پر ایک اثر ہوتا ہے۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ عوامی اجتماع سے جوش وخطابت میں جو کہا گیا اس سے شاید جوڈیشل ایڈمنسٹریشن متاثر ہو اور عوامی دلچسپی صرف ایڈمنسٹریشن آف جوڈیشری میں ہے۔ آپ نے خود کہا کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں ہونا چاہیے۔
مخدوم علی خان نے سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا عدلیہ مخالف تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک جلسے میں کسی لیڈر کی کہی بات سے عدالتی کارروائی متاثر نہیں ہوسکتی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر عمران خان کو ایک موقع دیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو عمران خان کے کنڈکٹ میں وہ بات نظر نہیں آ رہی جس کی ہم امید کر رہے تھے عمران خان کا جواب وہ نہیں۔ سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں ریمارکس ہوتے تو جواب ایسا نہ ہوتا۔ مخدوم صاحب آپ کے تمام دلائل درست ہیں اور جواب سے کیا آپ کو لگتا کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا ؟ یہی الفاظ سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں کہے ہوتے تو آپ اس جواب سے مطمئن ہوتے؟ عمران خان کے جواب میں احساس کا پہلو نظر نہیں آ رہا۔ ہم توہین عدالت پر یقین نہیں رکھتے اور ہم نے بہت سے معاملات میں برداشت کا مظاہرہ کیا اور کارروائی نہیں کی۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ یہاں اس عدالت میں آئے کیسز سیاست سے قریب تر ہی ہوتے ہیں اور جس فریق کے خلاف فیصلہ آئے دوسرا تنقید کرے گا، عدلیہ کا یہ پیغام جانا ہی نہیں چاہیئے کہ وہ سیاستدان کو کارنر کرنے میں شامل رہی۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے بھی توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی رائے دے دی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ ہمیں یہ رائے دے رہے ہیں کہ ہم جواز کو مان لیں، عمران خان نے معاملے کی سنگینی کو نہیں سمجھا اور مخدوم صاحب ایک بات ہم آپ کو بالکل واضح کہنا چاہتے ہیں کہ توہین عدالت کارروائی کے بعد جو کنڈکٹ ہونا چائیے تھا وہ نہیں نظر آیا۔ اس طرح کے کیسز میں غیر مشروط معافی مانگی جاتی ہے۔
عدالتی معاون نے کہا کہ میری رائے ہو گی کہ جمع شدہ جواب کو منظور کر کے نوٹس ڈسچارج کیا جائے اور دوسرا یہ توہین عدالت مرتکب ہونے والے کو بیان حلفی جمع کرنے کا موقع دیا جائے۔ میرے خیال میں معافی کا لفظ ضروری نہیں۔
دلائل مکمل ہونے اور فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد عمران خان نے نشست سے کھڑے ہو کر روسٹرم پر آنے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم نے سب وکلا کے دلائل سن لیے ہیں۔
عدالت نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
سماعت سے پہلے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انتظامیہ کوعوام کیلئے مشکلات پیدا کرنے سے روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ رجسٹرار ہائیکورٹ ڈپٹی کمشنر اور آئی جی پولیس کو فوری ہدایات جاری کریں، یقینی بنائیں کہ سیکیورٹی انتظامات کے دوران عوام کیلئے مزید مشکلات پیدا نہ ہوں، ہائیکورٹ کی اطراف میں کاروباری مراکز کو بند نہ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس میںعمران خان نے معافی مانگ لی
گزشتہ روز عمران خان نے 19 صفحات پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ غیر ارادی طور پر بولے گئے الفاظ پر افسوس ہے۔
تحریری جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان کا مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا۔ اگر خاتون جج کی دل آزاری ہوئی تو اس پر افسوس ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ اپنے الفاط پر خاتون جج سے پچھتاوے کا اظہار کرنے پر بھی شرمندگی نہیں ہوگی۔مجھے ضمنی جواب جمع کروانے کا موقع ملا تو پولیٹکل پوائنٹ سکورنگ کرنے والوں نے تنقید کی۔ انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ بشمول ماتحت عدلیہ کو مضبوط کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔خاتون ججز کی اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ میں زیادہ سے زیادہ بھرتی کا حمایتی ہوں۔
انہوں نے لکھا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہائیکورٹ میں شہباز گل کیس کی اپیل زیرالتوا ہے۔مجھے لگا کہ ماتحت عدالت نے جسمانی ریمانڈ دیدیا تو بات وہاں ختم ہو گئی۔شہباز گل پر ٹارچر کی خبر تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آئی۔
عمران خان نے کہا ہے کہ عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ ایسے معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لوں گا ۔کبھی ایسا بیان دیا نہ مستقبل میں دوں گا جو کسی عدالتی زیر التوامقدمے پر اثر انداز ہو۔ عدلیہ مخالف بدنتیی پر مبنی مہم چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا سوچ بھی نہیں سکتا۔عدالت سے استدعا ہے کہ میری وضاحت کو منظور کیا جائے۔