’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘
اور یہ آگ جہنم کی آگ سے بھی بھیانک ہوتی ہے۔
ہمارے کیس میں تو یہ المیہ بھیانک ترین یوں ہے کہ ہمارے اجتماعی گھر کے ہر چراغ نے آگ لگانے کو روشنی دینے پر ترجیح دی۔ میرا ایک مرحوم دوست بڑے دکھ سے کہا کرتا تھا کہ ہم لوگوں کو دولت، طاقت، عزت اور شہرت ہضم نہیں ہوتی۔ کچھ کو ہیضہ ہو جاتا ہے کچھ کو پیچش پکڑ لیتی ہے یعنی اپنے اپنے انداز میں غلاظت اگلنے لگتے ہیں۔ اس سوہنی دھرتی کا کوئی ایک ’’چراغ‘‘ بتائیں جو آتشِ نمرود کا باعث نہ بنا ہو لیکن افسوس ایسا ایک بھی نہ نکلا جس کے بارے میں کہا جا سکتا
’’بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق‘‘
انتہا تو یہ کہ ہمیں کوئی ایسا پرندہ بھی نصیب نہ ہوا جو اپنی چونچ میں پانی بھر بھر لاتا اور آگ بجھانے کی کوشش کرتا اور اگر کچھ ایسے احمق پرندے تھے بھی تو کسی ’’تیسری قوت‘‘ کی تلاش میں تھک تھکا کر اپنے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ گئے۔
اشرافیہ سے لے کر عوام تک کون سا ’’چراغ‘‘ تھا جس سے اس گھر کو آگ نہ لگی۔ جس کی چونچ تھی اس نے چونچ سے اس ملک کو نوچا، جس کا جبڑا تھا اس نے جبڑے سے اس ملک کے پڑچھے اتارے اور پرخچے اڑائے۔ کس نے بخشا رب العالمین کی اس بخشش کو جسے ہم پاکستان کہتے نہیں تھکتے۔ کوئی ہے جو مجھے بتائے اور سمجھائے کہ یہاں ’’پاکیزگی‘‘ کہاں ہے؟ پاک کون ہے؟ بچھوئوں کی قطار جا رہی تھی کہ کسی مجھ جیسے بیوقوف نے پوچھا….’’تم میں سردار کون ہے؟‘‘ ایک بزرگ بچھو نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے کہا …..’’جس کی دم پر ہاتھ رکھو وہی سردار ہے‘‘۔ ملک اقتصادی تختۂ دار پر ہے اور ہم سب ’’سردار‘‘ ہیں۔ ہم میں سے بھاری اکثریت سوداگروں اور کاروباریوں کی ہے۔ ہر اہم سرکاری و غیر سرکاری آدمی کسی نہ کسی ’’دھندے‘‘ میں ملوث ہے۔ کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا، کسی کا داماد، کسی کا سالا، کسی کا قریبی دوست اس کا ’’فرنٹ مین‘‘ ہے اور پیچھے بیٹھ کر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہا ہے اور وہ مستقل قسم کا معززبھی ہے کہ یہ ناپاک جمہوریت اِس قسم کی ’’دلالانہ‘‘ جمہوریت کی کھلی چھٹی اور اجازت دیتی ہے کیونکہ یہی اس عوام دشمن جمہوریت کے حُسن و جمال کی آخری انتہاہے اور جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے جو عوام سے لیا جاتا رہا، اب بھی لیا جا رہا ہے اور آئندہ بھی لیا جاتا رہے گا کہ یہی ’’کمیوں‘‘کی قسمت ہے اور ہونی بھی چاہئے کہ جو اپنی عزت نہیں کرتا، میں کیوں اس کی عزت کروں؟….جنہیں اپنی اولادوں کی پرواہ نہیں، میں ان کی اولادوں کی فکر کیوں کروں؟
خود کشی حرام نہ ہوتی تو کب سے یہ ’’کارنامہ‘‘ سرانجام دے چکا ہوتا کہ بری طرح تھک چکا ہوں حالانکہ اللہ کا شکر میرا ذاتی مسئلہ کوئی نہیں لیکن شاید میری ’’تاریخ پیدائش‘‘ ہی بہت منحوس ہے، ہماری اور کسی تاریخ کا کوئی قصور نہیں۔
ہر بدصورتی پر سوچتا ہوں کہ بس اخیر ہو گئی اور اب اس سے آگے کچھ نہیں ہو گا لیکن ہر بار ہر اندازہ اوندھے منہ جا پڑتا ہے۔ انگریزی محاورے کا ترجمہ ہے ’’بپھرا ہوا بیل شیشے کی دکان میں‘‘۔ یہ ملک اک ایسی دکان میں تبدیل ہو چکا جہاں ارنے بھینسے اور بیل نہیں، بدمست ہاتھیوں نے یلغار کر رکھی ہے۔ ہم وہ احمق بدنصیب ہیں جو اس وقت تک ری ایکٹ نہیں کرتے جب تک پانی سر سے نہ گزر جائے، NIP THE EVIL IN THE BUDوالا محاورہ ہم نے سنا نہیں اور سنا ہے تو سمجھا نہیں۔ لوگ جب تک ٹٹے ہوئے چھتر کی طرح اپنی حدود سے تجاوز نہیں کر جاتے ہمارے بڑوں کو عقل نہیں آتی۔ ایک زمانہ تھا سول سرونٹ، ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، وکیل، دانشور اور مفتی صاحبان ’’کریم آف دی سوسائٹی‘‘ سمجھے جاتے تھے۔ یہ سب پاکستان نامی اس گھر کے ’’چراغ‘‘ تھے جنہوں نے مل جل کر گھر کو روشن کرنے کی بجائے اسے جلا دینے کا فیصلہ کیا اور پھر تن من دھن کے ساتھ اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا جس کی ایک معمولی سی جھلک آپ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دیکھی۔
کیا یہ یہود و ہنود کی سازش ہے؟
کیا یہ سب کچھ کسی اسلامی ….جمہوریہ…. پاکستان کے شایانِ شان ہے؟
کیا ’’تجاوزات‘‘ اسلام میں گناہ عظیم نہیں کہ ’’ظلم‘‘ کا مطلب کسی کو چاقو، چھری، گولی مارنا ہی نہیں….اپنی حدود سے تجاوز کرنا ہے کہ اپنی حدود سے تجاوز ہی تو جہنم تک لے جاتا ہے۔ ہوش کرو طاقتورو پالیسی سازو! اور کر تو دھر تو “NIP THE EVIL IN THE BUD”کو سمجھو اور اس پر عمل کرو۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ کسی بھی پروفیشن کا جینوئن آدمی اپنے پیشے کی توہین اور تذلیل نہیں کر سکتا۔ اپنے پروفیشن کو ذلیل صرف وہی کر سکتا ہے جو سر تا پا ’’فیک‘‘ اور دو نمبر ہو۔ گندگی کے یہ ڈھیر ہر پیشے میں ہیں جن کی صفائی بہت ضروری ہو گی۔
ہے کسی میں اتنی جرأت اور طاقت کہ گندگی کے یہ ڈھیر صاف کر سکے؟ لیکن نہیں کیونکہ جن سے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر صاف نہیں ہو رہے، وہ اس گندگی کو کیسے صاف کریں گے؟ میں جب بھی بیرون ملک جاتا ہوں، میرے قریبی ضد کرتے ہیں ’’کچھ اور دن رک جائو‘‘ تو میں کہتا ہوں ….’’میں کاکروچ ہوں اور مزید اپنے گند سے دور نہیں رہ سکتا‘‘۔ اس حسین ترین ملک کو گٹر بنانے کی کوشش میں مبتلا ہر شخص غدار ہے اور اس کے ساتھ غداروں جیسا سلوک ہی ہونا چاہئے لیکن جمہوریت سے لے کر تجارت و صنعت تک ہماری تو DEFINATIONSہی تبدیل ہو چکیں۔ بروقت کچھ کر لیا ہوتا تو رینجرز تک نوبت نہ آتی۔
کون کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے؟ یہ ایک ملین نہیں، بلین نہیں، ٹریلین ڈالر سوال ہے جس کا جواب نہ ڈھونڈا تو عذاب الٰہی کی تیاری کرو کہ اس کا پرومو تو دارالحکومت اسلام آباد میں چل بھی چکا۔
’’اس گھر کو آگ لگ چکی گھر کے چراغ سے‘‘
بریگیڈ میرا مطلب ہے فائر بریگیڈ کہاں ہے؟
تازہ ترین خوشخبری:نوٹوں کی ویلیں، جمہوریت کا رقص اور بے حیائی کے گھنگھرو۔ وکالت سے سیاست تک سب کچھ زندہ باد۔
بشکریہ جنگ