جنرل فیض کا سیکرٹ
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا خیال تھا کہ اُن پر کبھی ہاتھ نہ ڈالا جا سکے گا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اُنہیں نومبر 2022ء میں بتا دیا تھا کہ اگر جنرل عاصم منیر آرمی چیف بن گئے تو تمہارا کورٹ مارشل ضرور کریں گے لیکن فیض صاحب کو یقین تھا کہ عاصم منیر آرمی چیف نہیں بن سکیں گے۔ جب عاصم منیر آرمی چیف بن گئے تو فیض صاحب نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ وہ محتاط رہے لیکن جب اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی تو وہ غیر محتاط ہو گئے۔ وہ ایک ایسے سسٹم کی پیداوار تھے جہاں طاقت کا بے جا استعمال ہوتا ہے، اختیارات کے ناجائز استعمال پر ادارے کے اندر تو جواب دہی ہوتی ہے لیکن جب آپ ادارے کے سربراہ بن جائیں تو پھر ملک کا آئین و قانون بے بس ہو جاتا ہے۔ فیض حمید کو یقین تھا کہ اگر اُن کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تو وہ یہ ثابت کر دیں گے کہ اُنہوں نے جو کچھ بھی کیا جنرل قمر جاوید باجوہ کے حکم پر کیا اور باجوہ کے خلاف کارروائی کی کوئی ہمت نہیں کر سکتا لہٰذا اُن کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہو گی۔
فیض حمید اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ چالاک اور ہوشیار سمجھتے تھے اور یہی اُن کی سب سے بڑی خامی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک نہیں تین مختلف جماعتوں کی قیادت کے ساتھ رابطے میں تھے وہ تحریک انصاف کے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما کے ذریعے مختلف لوگوں کو پیغامات بھیجتے اور تحریک انصاف کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ اپنے من پسند افراد کو پارٹی میں عہدے دلانے کی کوشش بھی کرتے تھے جس پر تحریک انصاف کے اندر اُن کے خلاف بے چینی پیدا ہو چکی تھی۔
اس بے چینی کے باعث کچھ ایسی خبریں بھی باہر نکلیں کہ انہوں نے تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں کو فوج کے حاضر سروس افسران کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی اور جب ان خبروں کی تصدیق ہو گئی تو پھر فیض حمید کے خلاف ایک سات سال پرانے مقدمے کو کھول کر کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کر دی گئی۔
ٹاپ سٹی اسلام آباد کے مقدمے کی تحقیقات کے دوران اُن کے خلاف ٹھوس ثبوت سامنے آگئے تھے لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ نے اُن کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دی۔ ٹاپ سٹی میں فیض حمید کا کردار کوئی ٹاپ سیکرٹ نہیں تھا اصل ٹاپ سیکرٹ تو وہ معاملات ہیں جن کی وجہ سے فیض حمید کو یقین تھا کہ اُن کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی۔ اُن کے اعتماد کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں اُن کے گہرے تعلقات تھے۔ مسلم لیگ (ن) میں اُن کے تعلقات کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجوہات جاننے کیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی میں موجودہ حکومت نے اپنے انتہائی قابل اعتماد پولیس افسران کو شامل کیا۔ کمیٹی کے سامنے مسلم لیگ (ن) کے وہ رہنما پیش ہوئے جو 2017 ء میں حکومت کا حصہ تھے اور اس کمیٹی نے فیض حمید کو بے قصور قرار دیدیا۔
عام تاثر یہ ہے کہ فیض حمید تحریک انصاف کے بہت قریب تھے لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ اُن کے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے بھی بڑے گہرے تعلقات تھے۔ 2019ء میں انہوں نے نہ صرف ان تعلقات کی مدد سے نواز شریف کو طبی بنیادوں پر پاکستان سے باہر بھجوایا بلکہ ان تینوں جماعتوں کو جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کیلئے بھی راضی کیا۔ باجوہ کو ایکسٹینشن دلوانے میں بھی فیض کا اپنا مفاد تھا۔ ایکسٹینشن کے نتیجے میں کچھ سینئر افسران ریٹائر ہو گئے اور فیض حمید کا نمبر اوپر چلا گیا۔ 2022ء میں باجوہ ایک اور ایکسٹینشن لینا چاہتے تھے لیکن اس مرتبہ فیض حمید آرمی چیف بننا چاہتے تھے۔
فیض حمید آرمی چیف بن کر قبل از وقت انتخابات کرانا چاہتے تھے اور اُن کا منصوبہ یہ تھا کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت بنا کر پاکستان کا آئین بدل دیا جائے۔ اُن سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ نواز شریف کی طرح آصف علی زرداری کو بھی طبی بنیادوں پر پاکستان سے باہر بھیجنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کیلئے اُنہوں نے بلاول بھٹو کو استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن بلاول نے اپنے والد کے خلاف کسی سازش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ بلاول نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم بنائی اور یوں عمران خان کی حکومت گرانے کیلئے کوشش کا آغاز ہوا۔
باجوہ نے عمران خان کے خلاف سازشیں اس لئے شروع کیں کہ خان صاحب کچھ معاملات پر باجوہ کا حکم ماننے کیلئے تیار نہ تھے۔ پہلا پھڈا تو عثمان بزدار پر ہوا۔ دوسرا پھڈا اسرائیل کو تسلیم کرنے پر ہوا اور پھر جب باجوہ نے فیض حمید کے ذریعے بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول کے ساتھ ایسے فیصلے کرنے شروع کر دیئے جن کا عمران خان کو علم نہیں تھا۔ جب اپریل 2022ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دورہ پاکستان طے کیا گیا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس دورے کو مسترد کر دیا۔ عمران خان نے اپنے وزیر خارجہ کا ساتھ دیا۔ باجوہ سخت ناراض تھے اور فیض حمید دونوں طرف کھیل رہے تھے۔
انہوں نے ایک طرف تو بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے معاہدے پر آمادگی ظاہر کی دوسری طرف عمران خان کو باجوہ سے بدظن کیا۔ عمران خان کا خیال تھا کہ بھارت نے 5اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کر کے پاکستان کو دھوکہ دیا ہے۔ لہٰذا اس دھوکے کے بعد بھارت کے ساتھ سیز فائر اور نریندر مودی کا دورہ پاکستان ان کیلئے مشکلات پیدا کرے گا۔
کشمیری رہنما سید علی گیلانی ان تمام واقعات پر صرف پریشان نہیں بلکہ ناراض تھے لہٰذا جب عمران خان نے مودی کا پاکستان میں استقبال کرنے سے انکار کیا تو باجوہ کے ساتھ ڈیڈ لاک ہو گیا۔ بعد میں صدر عارف علوی نے یہ ڈیڈ لاک ختم کرانے کی بہت کوشش کی لیکن فیض حمید نے عمران خان کو باجوہ پر اعتماد نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ فیض حمید کبھی عمران خان کے ہمدرد نہ تھے۔
وہ خان صاحب سمیت ہر کسی کے ساتھ ڈبل گیم کرتے رہے۔ 2019ء سے 2022ء کے دوران اُنہوں نے کچھ اہم غیر ملکی شخصیات کے ساتھ بھی تعلقات بنا لئے تھے اور اُنہیں یقین تھا کہ اگر اُن کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تو یہ شخصیات اُنہیں بچا لیں گی۔ ابھی تک ان شخصیات نے فیض حمید کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ فیض حمید کے خلاف کارروائی سے فوج میں کرپشن کا راستہ رُکے گا لیکن اصل مسئلہ کرپشن نہیں بلکہ سیاست میں فوج کی مداخلت ہے۔ اس مداخلت سے ہی کرپشن کے راستے کھلتے ہیں۔ فوج کو مضبوط بنانے کیلئے ضروری ہے کہ سیاست میں فوج کی مداخلت ختم کی جائے۔ فیض حمید جیسے کردار فوج کی سیاست میں مداخلت سے پیدا ہوتے ہیں۔
بشکریہ جنگ