سپریم کورٹ میں ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر تحریک انصاف کے وکیل کے دلائل مکمل۔ اٹارنی جنرل جمعرات کو دلائل کا آغاز کرینگے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارا ملک اسوقت ایک مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے۔معاشی حالات بھی اچھے نہیں۔ہم سب کو ملکی حالات کا بہادری اور تحمل سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
عدالتی دروازے پر احتجاج انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کیخلاف درخواستوں پرسماعت کی۔ دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل علی ظفرنے 1962 کے عدالتی ایکٹ کاحوالہ دیتے ہوئے دلائل دیئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ بھارت میں حق سماعت نہ ملے تونظرثانی درخواست دائرہوتی ہے۔ ہمارے یہاں فیصلہ غیرقانونی ہو تو نظرثانی ہوجاتی ہے۔ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ نظرثانی قانون کووسیع کرسکتی ہے۔آئین میں نظرثانی کے دائرہ اختیارکوبالکل واضح لکھا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ میں کوئی الگ گروپ نہیں بنا رکھا، جسٹس قاضی فائز عیسی کی وائرل ویڈیو پر وضاحت
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ فوجداری ریویومیں صرف نقص دور کیا جاتا ہے جبکہ سول میں اسکوپ بڑا ہے۔ چیف جسٹسس کا کہنا تھا کہ نظرثانی کےآئینی تقاضے ہیں مگراسے اپیل میں نہیں بدلاجا سکتا۔ اگرنظرثانی میں اپیل کا حق دینا ہے تو آئینی ترمیم درکار ہو گی۔ نظرثانی کیس میں صرف نقائص کاجائزہ لیا جاتا ہے۔ نئےشواہد بھی پیش نہیں ہوسکتے۔ہم یہ دیکھ رہے ہیں کیا پارلیمنٹ ریویو اسکوپ بڑھا سکتی ہے؟
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے حکمنامے کی روشنی میں آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نےکارروائی روک دی
جسٹس اعجاز الاحسن کے مطابق اس قانون کوصرف 184 تھری تک محدود کیا گیا ہے۔ایک محدود مقصد کیلئے ریویو اپیل بنا دیا گیا۔ کل پارلیمنٹ ایک اورقانون بناتی ہے کے ایک نہیں دواپیلیں ہوا کریں گی توکیا ہوسکتا ہے؟
مذاکرات میں پیشرفت پر سپریم کورٹ اپنے حکم پر غور کرسکتی ہے، چیف جسٹس
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اب توایکٹ کے آنے سے پہلے کے فیصلوں پربھی نظرثانی قانون لاگو ہو گا اورازخود نوٹس والے مقدمات پر بھی ایکٹ لاگو ہو گا۔ جس سے سب کیس دوبارہ کھل جائیں گے۔تحریک انصاف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر دوسرے درخواست گزارریاض حنیف راہی روسٹرم آئے اور بولنا چاہا تو چیف جسٹس نے کہا کہ ذاتی باتیں چیمبرمیں آکربتائیں-