سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی

supreme court

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سیویلنز کے ملٹری کورٹ ٹرائل کے کیس میں فوجی عدالتوں کو ملزمان کے کیسز کے فیصلے سنانے کی اجازت دیدی۔

سپریم کورٹ کا آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کررہا ہے جہاں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دے رہے ہیں۔

سماعت کے آغاز میں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کے کیس کے علاوہ دیگر تمام کیسز کی سماعت موخر کرتے ہوئے کہا کہ آج صرف فوجی عدالتوں والا کیس ہی سنا جائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل ریمارکس دیے کہ اس نکتے پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے ہر فرد کو اس کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟ اس پہلو کوبھی مدنظر رکھیں کہ آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے پہلے بنا تھا۔

توشہ خانہ ٹو کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کل بھی کہا تھا کہ 9 مئی واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاوس کا ہے، اگر کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو بھی آگاہ کردیں، اس پر ایڈشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں،تفصیلات متفرق درخواست کی صورت میں جمع کرواؤں گا۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمیدکو باضابطہ طور پر چارج شیٹ

آئینی بینچ کی جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے انکے تحت ہونے والے ٹرائل کا کیا ہوگا؟ 9 مئی سے قبل بھی تو کسی کو ان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہوگی، وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا عموماً کالعدم ہونے سے پہلے متعلقہ دفعات پرہوئےفیصلوں کو تحفظ ہوتا ہے، اس پر جسٹس مسرت نے ریمارکس دیے کہ یہ تو اُن ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہوگی۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ افواجِ پاکستان میں کوئی شخص زبردستی نہیں،اپنی مرضی سے جاتا ہے، فوج میں شامل ہونےوالےکومعلوم ہوتا ہےاس پر آرمی ایکٹ لاگو ہوگا اور آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے، آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کے قواعد اور ڈسپلن کےلیے ہے، اس پر وکیل خواجہ حار ث نے کہا کہ فوج میں کوئی بھی جرم کی نیت سے نہیں جاتا، بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی ختم ہوتے ہیں۔

کیا مجبوری ہو تو آئین و قانون کو نہیں مانا جاتا؟ اصول توڑ‌دیے جاتے ہیں؟؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ

جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کیا اپیل میں سپریم کورٹ صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک محدود رہے گی؟کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلو کابھی جائزہ لے سکتی ہے؟ اس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ فریقین اپنی معروضات تک محدود رہ سکتے ہیں لیکن عدالت نہیں۔

بعد ازاں آئینی بینچ نے کیس میں آج کی سماعت کا آرڈر جاری کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو فیصلہ 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔

عدالت نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *