سپریم کورٹ نے رئیل اسٹیٹ پر 20 فیصد انکم ٹیکس کے خلاف عبوری ریلیف دے دیا جس سے محصولات کی وصولی میں جزوی طور پر کمی آئے گی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں خصوصی بنچ نے ٹیکس دہندگان کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے حتمی فیصلہ آنے تک صرف 50 فیصد انکم ٹیکس ادا کرنے کا حکم دیا،عدالت نے ایف بی آر کی کارکردگی،اہداف کے حصول میں ناکامی اورمحدود ٹیکس نیٹ پر کچھ سخت ریمارکس بھی دیئے۔
شرح سود 7 فیصد پر برقرار رہے گی، اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا
عبوری فیصلے کے مطابق عدالت عظمیٰ نے ٹیکس کا نصف جمع کرانے پر ایف بی آر کو ٹیکس دہندگان کے خلاف کارروائی سے روک دیا،عدالت میں درخواست گزاروں کی نمائندگی فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کی، جنہوں نے ایف بی آر سے صوبائی دائرہ کار میں ٹیکس لگانے کے آئینی مینڈیٹ کے بارے میں بھی استفسار کیا۔
وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں 8 روپے فی لیٹر تک اضافہ کردیا
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ایف بی آر قابل اعتماد ادارہ نہیں اور یہ ٹیکس ادا کرنے والوں پر دوبارہ بوجھ ڈال رہا ہے۔
ایف بی آر کو نو ماہ میں محصولات کا ہدف حاصل کرنے کیلیے ایک ہفتے میں 560 ارب روپے جمع کرنے کا مشکل مرحلہ درپیش ہے۔
کرنسی مارکیٹ میں بھونچال، ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلندترین سطح پر
رئیلٹی اور مینوفیکچرنگ سیکٹرز نے سیکشن 7 ای کے خلاف درخواستیں دائر کیں جو حکومت نے پچھلے سال جون میں متعارف کرائی تھی تاکہ ان لوگوں پر ٹیکس عائد کیا جا سکے جنہوں نے پاکستان میں موجود سرمائے کی منصفانہ مارکیٹ ویلیو کے 5 فیصد کے برابر آمدنی حاصل کی،ان سے 20 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
ادھر ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ٹیکس کی موثر شرح 1 فیصد ہے، جس کا مقصد 15 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کرنا ہے۔