سپریم کورٹ کا پنجاب اور خیبرپختون خوا میں نوے روز میں الیکشن کروانے کا حکم آگیا۔ 90 روز میں انتخابات سے متعلق درخواستیں منظور کرلی گئیں۔ سپریم کورٹ کا اپنے حکم میں کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو جنرل الیکشن میں تمام سہولتیں قائم مقام حکومتیں فراہم کرنے کی پابند ہیں۔ از خود نوٹس اور دو درخواستیں خارج کرتے ہیں۔
الیکشن 90 دن میں ہونے چاہئیں آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں، چیف جسٹس
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ آئین عام انتخابات سے متعلق وقت مقرر کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن ایکٹولی گورنر اور صدد کے ساتھ ایڈوائس کا کردار ادا کرنے کا پابند ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ گورنر کے پی نے انتخابات کا اعلان نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی کی۔ صدر نے اپریل میں انتخابات کرانے کی تاریخ کا اعلان کیا۔
اس صورتحال میں الیکشن کمشین نے اپنا کردار ادا نہ کیا۔ لیکن اب وہ صدر کے ساتھ مشاورت کرکے معاملے کو حل کرے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ وفاق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہ وفاق کی ڈیوٹی بھی ہے کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کی مدد کرے گا۔ فیصلہ تین دو کے تناسب سے سنایا گیا۔ فیصلے میں دو ججز نے اختلافی نوٹ بھی لکھا۔
اختلافی نوٹ
اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت یہ کیس قابل سماعت نہیں، ہائیکورٹس3 روز کے اندر کیس کا فیصلہ کریں۔ پشاور اور لاہور ہائیکورٹ تین دن میں انتخابات کی درخواستیں نمٹائیں۔ ججز نے لکھا کہ جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹس سے اتفاق کرتے ہیں۔
انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا
اپنے اختلافی نوٹ میں دو ججز نے لکھا کہ پہلے سے 2درخواستیں موجود تھیں۔ پہلے سے موجود درخواستوں کو جلدی سننے کی کوشش کی گئی۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ ظہور الہٰی اور بے نظیر بھٹو کیس کے فیصلے اس بارے میں واضح ہیں۔ جب ایک درخواست موجود ہو تو پھر اس کیس میں جلدی نہ ہو۔
پنجاب کی نگراں حکومت کا پاکستان سپر لیگ 8 کے میچز کیلیے پی سی بی کو فنڈز نہ دینے کا فیصلہ
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ منظور الہٰی اور بے نظیر کیس کے مطابق از خود نوٹس لینا نہیں بنتا۔ ہائیکورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے۔ 90روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ ایک ایپکس کورٹ ہے اس کو ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ کی ایسی مداخلت صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے۔ 23فروری کو جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہرمن اللہ نے جو نوٹ دیا اس پر ہم مطمئن ہیں۔