دشوار گزار علاقوں میں ڈرون کے ذریعے مختلف پودوں کے بیج بکھیرے جاسکتے ہیں تاہم اب تک بیج مٹی میں نہ جانے سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ اسی طرح ہوا ان بیجوں کو اڑالے جاتی یا انہیں جانورچرجاتےہیں۔ تاہم اب امریکی ماہرین نے بیجوں کو ایسے اسکرو نما ساختوں میں رکھا ہے جو ڈرل مشین کی طرح گھومتے ہوئے مٹی میں جذب ہوجاتے ہیں اور یوں کونپلیں پھوٹنے لگتے ہیں۔
کارنیگی میلون یونیورسٹی کی پروفیسر لیننگ یوآؤ نے یہ سبق ایروڈیئم پودے سے لیا ہے جو خشک ماحول اور سخت زمین میں بھی بیج بودیتا ہے۔ اس کے باریک تنکے میں بیج بھرے ہوتے ہیں ۔ پانی یا نمی کی صورت میں یہ کیل کی طرح سیدھاہوجاتا ہے اور گھوم کر زمین میں گھسنے لگتا ہے اور یوں نیچے موجود بیج مٹی میں چلے جاتے ہیں۔
چین میں لامحدود وقت تک ہوا میں رہنے والے لیزرڈرون کا تجربہ کامیاب
عین اسی طریقے پر ڈاکٹر لیننگ نے شاہِ بلوط کے درخت سے ’ای سیڈ‘ بنایا ہے کیونکہ یہ نمی سے بہت حساس ہوتا ہے . اس کے ڈنٹھل کی تین دُمیں(کنارے) ہوتے ہیں اور زمین ہموار مل جائے تو وہ سیدھا کھڑا ہوسکتا ہے۔
سائنسدانوں نے اسے پانچ مراحل سے گزارا ہے اور جس میں کیمیکل سے دھونے، مشینی انداز میں مولڈنگ اور بیجوں کو بھرنے جیسے اہم مراحل شامل ہیں۔ واضح رہے کہ بیج کی پوشاک بنانے میں طبیعیات، میکانیات، مٹیریئل سائنس اور حرکیات کو بغور نوٹ کیا گیا تھا۔
سائنسدانوں نے الزائمر سے متاثر ہونے کی رفتارکم کرنے کے لیے دوا تیار کر لی
ماہرین نے اس کی ویڈیو بنائی ہے اور اسے ڈرون سے ایک جگہ گرایا۔ اس کے بعد جیسے ہی بارش آئی تو آئی سیڈ سیدھا ہوگیا اور کسی ڈرل مشین کی نوک کی طرح گھوم کر زمین میں اپنی جگہ بنائی۔ اس طرح کناروں پر رکھے بیج کھل گئے اور ان سے کونپلیں پھوٹنے لگیں۔ ماہرین نے ثابت کردکھایا ہے کہ فطرت کی مدد سے ہی بیجوں کو ایک قدرتی اسکرو میں بدل کر یہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کا تخلیق کاروں کے لیے معاوضے کا اعلان