اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حمداللہ کی پاکستانی شہریت منسوخ کرنے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔
وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں بینچ نے حافظ حمداللہ کی شہریت منسوخی کے خلاف درخواست پر سماعت کی، اس دوران درخواست گزار اور نادرا کے وکیل پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ نادرا نے ان کے موکل کا شناختی کارڈ منسوخ کردیا ہے، اس فیصلے کے خلاف نادرا میں درخواست دی تاہم ایک ہفتے سے اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ نادرا کے اقدام کو کالعدم قرار دے کر وزارت داخلہ کو مزید کسی بھی کارروائی سے روکا جائے۔
وکیل کے دلائل پر نادرا کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ دسمبر 2018 میں پہلی مرتبہ حافظ حمد اللہ کو خط لکھا گیا اور ضلع سطح کی کمیٹی کو آگاہ کیا گیا، جس کے بعد حافظ حمداللہ کمیٹی میں پیش ہوئے اور جو دستاویزات طلب کی تھیں، انہیں پیش کیا، تاہم یہ دستاویزات جعلی نکلیں۔
اس پر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حافظ حمداللہ کے بچے ہیں کیا ان کے پاکستانی شناختی کارڈ بنے ہوئے ہیں، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جی بچوں کے شناختی کارڈ ہیں اور ایک بیٹا فوج میں بھی ہے۔
وکیل کے جواب پر عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جو ماں اپنے بیٹے کو وطن پر قربان کرنے کے لیے بھیج دے کیا اُس کے شوہر کی شہریت پر کوئی شک ہو سکتا ہے؟
بعدازاں عدالت نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد حافظ حمد اللہ کی پاکستانی شہریت منسوخ کرنے کا نادرا کا فیصلہ معطل کردیا۔