ذرا تصور کریں!- روف کلاسرا

RAUF KLASRA JOURNALIST

آج کل پاکستانی بچوں کی بھارت کے بارے میں نفرت بھری ویڈیو سوشل میڈیا پر چل رہی ہے‘ جس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے وہ ہندوستان کو فتح کریں گے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ستر برس سے زائد عرصے سے جاری جنگ و جدل کی صورتحال دیکھ کر یاد آیا کہ 2007ء میں گولڈ سمتھ کالج لندن میں Colonialization کی کلاس پڑھتے ہوئے میں نے گوری استاد کے لیکچر سے الجھن سی محسوس کی ۔ وہ بولیں: یس رئوف تم کچھ کہنا چاہتے ہو؟میں نے کہا: آپ اتنی دیر سے ہمیں سمجھا رہی ہیں کہ برطانیہ نے ہندوستان کو اس لیے آزاد نہیں کیا تھا کہ وہاں آزادی کی تحریکیں طاقتور ہوگئی تھیں یا گورے محمد علی جناحؒ ‘گاندھی یا نہرو سے ڈر گئے تھے۔ آپ کے بقول جنگ عظیم دوم کے بعد برطانیہ کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی‘ برطانوی سلطنت کا یہ حال ہوچکا تھا کہ اخراجات کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ امریکہ سے ایک ارب ڈالر کا قرض مانگا جارہا تھا ‘ لہٰذا بری معاشی حالت کے پیش نظر ہندوستان کو چھوڑنا سلطنت کی مجبوری بن چکی تھی‘ نہ کہ آزادی کی تحریک نے گوروں کو مجبور کیا تھا جبکہ ہمیں ہندوستان اور پاکستان کی درسی کتب اور تاریخ کی کتابوں میں پڑھایا گیا ہے کہ ہم نے گوروں کو ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ آزادی کے ہیروز کی طویل فہرست ہے۔ اب آپ بتا رہی ہیں کہ آپ لوگوںنے خود ہم سے جان چھڑا لی تھی‘ کیونکہ آپ کے اپنے حالات خراب تھے۔ اس لیے میں کنفیوز ہوں ‘میں نے جو کچھ اب تک پڑھا ہے وہ درست تھا یا جو آپ جوبتا رہی ہیں وہ درست ہے؟
ان کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری اور وہ بولیں: ویل رئوف ‘اگر ہندوستان والوںنے آزادی چھیننا تھی تو پھر وہ بھی نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی طرح 1920ء کی دہائی میں لے لیتا۔ اس وقت سلطنت برطانیہ عروج پر تھی ۔ ہندوستان اسی وقت آزاد ہوا جب ہم چاہتے تھے‘ کیونکہ ہمارے معاشی حالات خراب ہوگئے تھے‘ اب اتنی بڑی سلطنت کو قائم رکھنا مشکل ہوگیا تھا ۔

اب جب میں نے کشمیر کہانی سیریز لکھنے کیلئے سات مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ہندوستان کو فوری طور پر تقسیم کرنے کے پیچھے بڑی وجہ کلکتہ اور پنڈی کے قریب ہونے والے خوفناک فسادات بنے تھے۔ اگرچہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پاس جون 1948ء تک کی ڈیڈ لائن تھی لیکن جب اس نے ہندو ؤںاور مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی قتل و غارت دیکھی تو فوراً ہندوستان کو تقسیم کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ ہندوستان اور پاکستان کی قیادت کا یہ خیال تھا کہ ہندوستان تقسیم ہوتے ہی مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان فسادات رک جائیں گے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کیلئے یہ بڑا شاک تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوتے ہی قتل و غارت شروع ہوگئی۔ ماؤنٹ بیٹن حیران تھا کہ جب مسلمان اور ہندو ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے اور دونوں کو اپنا اپنا ملک مل گیا ہے تو وہ کیوں ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں؟ قائداعظم کا بھی یہی خیال تھا کہ تقسیم کی صورت میں فسادات نہیں ہوں گے۔ نہرو سے پٹیل تک سبھی کا یہی خیال تھا لیکن صرف گاندھی اکیلا تھا جس کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں قتل ِعام بڑھے گا ۔ یہ دو قومیں ایک دوسرے کا گلا کاٹتی رہیں گی ۔ ویسے ذرا تصور کریں اگر 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں انگریز ہندوستان اور پاکستان کی بجائے پورے درجن بھر نئے ملک بنا جاتے تو اس خطے کا کیا حال ہونا تھا؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسا احمقانہ قسم کا مفروضہ ہے ؟ یہ مفروضہ نہیں بلکہ یہ وہ اصل پلان تھا جو ماؤنٹ بیٹن نے پہلے ڈرافٹ کیا تھا۔ وائسرائے کا پلان یہ تھاکہ ہندوستان میں دو نہیں بلکہ درجن بھر نئے ملک ہونے چاہئیں۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے راجوں مہاراجوں کے منت ترلوں کے بعد شروع میں تو یہاں تک قائل ہوچکا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ اس خطے میں جو 565 ریاستیں ہیں‘ انہیں بھی یہ موقع دیا جائے کہ وہ آزاد ملک کے طور پر جنم لے سکیں ۔ ان میں بنگال اور حیدر آباد دکن کو بھی الگ ملک بنانے کا منصوبہ شامل تھا۔ خیر وہ تو نہرو گاندھی نے رولا ڈال دیا کہ اس خطے میں ہزاروں قومیں رہتی ہیں، ہزاروں زبانیں، کلچر، مذہب اور روایات ہیں جو ایک دوسرے سے نہیں ملتیںا ور ہزاروں سال پرانی دشمنیاں ہیں ‘ اگر درجن بھر ملک بن گئے تو لوگ ایک دوسرے کو کاٹ ڈالیں گے۔ نہرو کو تاریخ پر کمانڈ تھی‘ اسے یہ بھی علم تھا کہ ہندوستان میں ہمیشہ سے چھوٹی ریاستیں ایک دوسرے سے لڑتی رہی ہیں‘ بلکہ ہندوستان کی بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں شکست کی بڑی وجہ آپس کی لڑائیاں اور جھگڑے تھے۔ اس لیے جب ماؤنٹ بیٹن نے اپنا منصوبہ نہرو کے ساتھ شیئر کیا تو نہرو کانپ اٹھا کہ یہ تو ہندوستان کو دوبارہ ماضی میں دھکیل کر جارہا ہے۔ نہرو کا تاریخی شعور اس کے کام آیا اور اس نے ماؤنٹ بیٹن کو درجن بھر نئے ملک نہیں بنانے دئیے‘ طے ہوا‘ صرف پاکستان اور ہندوستان بنیں گے۔
اب ذرا تصور کریں اس خطے میں ایک درجن نئے ملک ہوتے تو کیا سین ہونا تھا؟ یہاں تو دو ممالک‘ پاکستان اور ہندوستان مل کر رہنے کو تیار نہیں۔ پہلی جنگ تقسیم کے فورا ً بعد شروع ہوگئی ‘ دوسری جنگ اٹھارہ برس بعد ہوئی اور تیسری جنگ چوبیس برس بعد ‘جس سے بنگلہ دیش نکلا۔ اس کے بعد گارگل ہوا ‘ ابھی فروری میں تقریباً جنگ ہوچلی تھی۔ اب بھی اندیشے موجود ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر پھر جنگ نہ چھڑ جائے۔ دیکھ لیں ان تین ملکوں کے آپس میں کیسے تعلقات ہیں؟ خالدہ ضیا وزیراعظم بنتی ہیں تو بنگلہ دیش کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوجاتے ہیں ‘ حسینہ واجد بنتی ہیں تو پاکستان کے ساتھ وہ بگڑ جاتی ہیں ۔ ہندوستان میں جب تک گاندھی اور نہرو کے اثرات رہے‘ وہاں جمہوریت اور سیکولرازم نے معاشرے کو سنبھالے رکھا؛ تاہم بی جے پی نے اس متھ کو توڑنے کا فیصلہ کیا کہ کافی ہوگئی مسلمانوں کو خوش کرنے کی سیاست۔ انہوں نے ہندوستانی نیشنل ازم اور ہندوازم کو ابھارا۔پاکستان میں اگر مسلمان طالبان تھے تو انہوں نے ہندو طالبان پیدا کر دیے ہیں اور اب باقاعدہ پوری ہندوستانی نسل کی برین واشنگ کی جا رہی ہے ۔

ایک وقت تھا جب پاکستانی ہندوستان سے امن پیار کی بات کرتے تو انہیں بھارت کا ایجنٹ سمجھا جاتا اور طعنہ دیا جاتا تھا کہ وہ ہندوستان چلے جائیں۔ اب یہی کام ہندوستان میں شروع ہوچکا ہے۔ کشمیر کے معاملے پر جس طرح ہندوستانی معاشرے نے ردعمل دیا وہ اس کا ثبوت ہے کہ ہندوستانی معاشرہ بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ ایک ہندوستانی صحافی نے ٹویٹ میں لکھا کہ وہ برتھ ڈے پارٹی پر گئیں تو وہاں بچوں نے مسلمان بچے کو کہا : ہندوستان سے نکل جائو‘پاکستان چلے جائو۔بات اب بچوں تک آن پہنچی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت یہاں تک ابھاری گئی کہ اب ہندوئوں کے گروہ سڑکوں پر انہیںگھیر کر مارتے ہیں۔ ہندوستانی معاشرہ پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت میں بکھر رہا ہے۔ سول وار کی سی صورت حال پیدا ہورہی ہے۔ پہلے پاکستان میں یہ نفرت تھی ‘لیکن ہم کسی حد تک نارمل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان میں ہندوستان سے تعلقات اچھے کرنے کی بات پر کوئی گالی نہیں دیتا ‘ جبکہ ہندوستان میں پاکستان سے امن کی بات کرنے کی بات کو گالی سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ بری طرح نفرت کا شکار ہوچکا ہے۔

میرا خیال تھا یہ نفرت صرف ہندوستان کے بچوں میں شفٹ ہورہی ہے‘ لیکن مجھے پتہ نہ تھا کہ یہ کام ہمارے ہاں بھی شروع ہوچکا ہے۔ پاکستانی بچے بھی وہی سیکھ رہے ہیں جو ہندوستانی بچے سیکھ رہے ہیں ۔ اس سے اندازہ لگا لیں اس خطے کا کیا مستقبل ہے‘ اور ابھی انگریزوں نے صرف دو ملک بنائے تھے۔ ذرا تصور کریں کہ یہ صرف ہندوستان اور پاکستان کی نسلوں کی کہانی ہے جو تباہی بربادی کے لیے تیار ہورہی ہیں ‘ اگر ماؤنٹ بیٹن اپنے پہلے پلان کے مطابق درجن بھر ملک بنا جاتا تو نفرتوں سے بھرے اس خطے میں کیسی چاند ماری ہونا تھی۔ ان درجن بھر ملکوں کے بچوں کی نفرت انگیز ویڈیوز اس وقت سوشل میڈیا پر چل رہی ہوتیں اور ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہوتے اور کیا کیا تباہیاں ہماری منتظر ہوتیں۔ ابھی تو صرف دو ملکوں کے بچوں کی نسلیںسوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ ذرا تصورکریں
بشکریہ دنیا نیوز

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *